طالبان کی قید میں مسلمان ہونے والے آسٹریلوی پروفیسر افغانستان جانے کے خواہاں
ساڑھے تین سال تک افغان طالبان کی قید میں صعوبتیں برداشت کرنے اور پھر وہیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے آسٹریلیوی پروفیسر ٹموتھی ویکس (جبرئیل عمر) اب واپس افغانستان آکر بچوں اور خواتین کی تعلیم پر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔
ٹموتھی ویکس کو طالبان نے 2016 میں کابل میں امریکی یونیورسٹی کے باہر دوسرے پرفیسر کیون کنگ کے ہمراہ اغوا کیا تھا اور انہیں نومبر 2019 میں افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان امن مذاکرات معاہدے کے تحت آزاد کیا گیا تھا۔
ٹموتھی ویکس نے طالبان کی قید کے دوران 2018 میں اسلام قبول کیا تھا اور انہوں نے اپنا نام تبدیل کرکے جبرئیل عمر رکھا تھا۔
وہ طالبان کی قید میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے دوسرے مغربی شخص تھے، ان سے قبل 2001 میں برطانوی صحافی ایوان رڈلے نے اسلام قبول کرکے اپنا نام مریم رکھا تھا۔
طالبان نے جبرئیل عمر کو نومبر 2019 میں امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور انس حقانی سمیت تین اہم طالبان رہنماؤں کی آزادی کے بدلے چھوڑا تھا۔
تقریبا ساڑھے تین سال تک افغان طالبان کی قید میں ان کا تشدد برداشت کرنے اور پھر ان کی مہمان نوازی اور ہمدردی سے متاثر ہونے والے پروفیسر جبرئیل عمر اب دوبارہ افغانستان آنے کے خواہاں ہیں۔
جبرئیل عمر نے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی اردو‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں افغانستان جاکر وہاں بچوں اور خواتین کی تعلیم پر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
جبرئیل عمر کے مطابق وہ نہ تو افغانی ہیں اور نہ ہی طالبان کا حصہ ہیں مگر وہ وہاں حالیہ افغان طالبان حکومت کی اجازت اور تعاون سے وہاں جاکر بچوں اور خواتین کی تعلیم پر کام کام کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسلامی امارات افغانستان کی حالیہ حکومت انہیں بطور تعلیمی فلاحی تنظیم کے نمائندےکے وہاں کام کرنے کی اجازت دے گی۔
انہوں نے انٹرویو میں طالبان کی قید میں خود پر ہونے والے تشدد کی داستان بھی بتائی اور کہا کہ شروع میں ان پر بہت تشدد کیا جاتا تھا مگر پھر طالبان کی ان سے دوستی ہوگئی اور ان کی خوب مہمان نوازی کی گئی۔
یہ بھی ُپڑھیں: افغانستان: طالبان نے 2 غیر ملکی قیدیوں کو رہا کردیا، پولیس
جبرئیل عمر نے بتایا کہ جب ان کے اور طالبان کے درمیان تعلقات اچھے ہوئے تو انہوں نے طالبان سے مطالعے کے لیے کچھ کتابیں مانگیں تو انہوں نے انہیں انگریزی ترجمے والے قرآن پاک سمیت دیگر مذہبی کتابیں دیں اور وہ وہیں سے اسلام سے متاثر ہوئے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ مغربی دنیا اسلاموفوبیا یعنی بغض اسلام میں مبتلا ہے اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے۔
جبرئیل عمر کا کہنا تھا کہ جب وہ طالبان کی قید سے آزاد ہوکر آسٹریلیا پہنچے اور وہاں لوگوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے تو ان پر تھوکا گیا، انہیں کتا کہا گیا، ان کے لیے نامناسب زبان استعمال کی گئی۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے مسلمان ہونے کے بعد آسٹریلیا میں مذہب کی بنیاد پر نفرت اور تضحیک کی گئی جو کہ وہاں کے قانون کے حساب سے جرم ہے مگر ان پر کیچڑ اچھالنے والوں کو کچھ نہیں کیا گیا۔