• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

چین سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات شروع

شائع January 15, 2022
یکم جنوری 2020 سے چین سے پیٹرول کی درآمد پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی
یکم جنوری 2020 سے چین سے پیٹرول کی درآمد پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاک ۔ چین فری ٹریڈ معاہدے (سی پی ایف ٹی اے) کے غلط استعمال کی خبروں کے باعث حکومت نے تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ثبوتوں کے ساتھ اعداد و شمار کی بنیاد پر چین سے درآمد شدہ پیٹرول کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی پی ایف ٹی اے کے تحت دوبارہ کیے گئے مذاکرات کے تحت، حکومت نے 31 دسمبر 2019 کو قانونی ریگولیٹری احکامات جاری کیے تھے جس میں پیٹرول کی درآمد پر ٹیرف کو ختم کر دیا گیا تھا۔ یکم جنوری 2020 سے چین سے پیٹرول کی درآمد پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں تھی۔

دیگر تمام ذرائع، زیادہ تر مشرق وسطیٰ سے عام پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے جبکہ اسی طرح کی ڈیوٹی مقامی ریفائنریز کی پیداوار پر لاگو ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا پیٹرول بحران کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ

اس کے نتیجے کے طور پر چین سے درآمد پیٹرول پر 10 فیصد کی بچت ہوئی تاہم اس کا فائدہ صارفین کو منتقل کرنے کے بجائے کمپنیوں نے منافع کو ونڈفال پرافٹ کے طور برقرار رکھا جبکہ عالمی پلاٹس آئل گرام رپورٹ کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے سے 12 روپے تک کا روزانہ فرق ہوتا ہے۔

وزارت توانائی کا دو درجن کے قریب آئل کمپنیوں اور ریفائنزیز کی تنظیم آئل کمپنی ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) کو لکھے گئے خط میں کہنا ہے کہ کئی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے سی پی ایف ٹی اے کے تحت چین سے پیٹرول درآمد کیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ او سی اے سی یقینی بنائے کہ تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اپنی درآمد سے متعلق گزشتہ دو سال یعنی جنوری 2020 سے جنوری 2022 تک کی درآمد کی مکمل تفصیلات دس روز کے اندر فراہم کریں۔

مکمل معلومات میں کارگو کا نام، جس بندرگاہ سے کارگو لوڈ کیا گیا اس کا نام، پیٹرول کی مقدار، جس بندرگاہ پر پیٹرول اتارا گیا تاریخ کے ساتھ اس کا نام اور جو کسٹم ڈیوٹی ادا کی گئی اس کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: آئل کمپنیوں نے بیوروکریسی کو پیٹرول بحران کا ذمہ دار ٹھہرادیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ 28 اپریل 2019 میں دستخط کردہ تجارتی معاہدے کا بنیادی مقصد شفاف مثبت تجارتی مقابلے کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

چین خود پیٹرولیم مصنوعات کو درآمد کرنے والا ملک ہے جس کی پیٹرول اور ٹرانسپورٹیشن قیمت بھی پاکستان کے لیے مشرق وسطیٰ سے زیادہ ہے۔

اس کے باجود یہ معاہدہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو اچھا خاصا مارجن دیتا ہے، سی پی ایف ٹی اے کے تحت یہ پوزیشن یکم جنوری 2020 سے 31 دسمبر 2024 تک برقرار رہے گی۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہوتا ہے کہ مقامی ریفائنریز سال بھر کم صلاحیتی استعال پر رو رہی ہوتی ہیں اور بعض اوقات اپنی ریفائننگ سہولیات کو مکمل طور پر بند کر دیتی ہیں، جس کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ درآمد ہے۔

پانچ میں سے تین مقامی ریفائنریز نے پچھلے دو ہفتوں کے دوران کام روک دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے پیٹرول کی قلت کی ذمہ داری وزارت توانائی پر ڈال دی

گزشتہ ماہ مقامی ریفائنریز نے حکومت کو بتایا تھا کہ اگر مقامی ریفائنریز کو مکمل صلاحیت کے ساتھ چلایا جائے تو پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی مقامی پیداوار بالترتیب 60 اور 48 فیصد تک اوپر جاسکتی ہے جس سے قیمتی زرمبادلہ کی بچت میں مدد ملے گی۔

رواں مالی سال کے گزشتہ پانچ ماہ کے دوران تیل کا درآمدی بل خاص طور پر ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کا بل جو کہ درآمدات بل کا سب سے بڑا تقریبا 83 فیصد حصہ ہے اور گزشتہ ماہ حصص کی قیمتیں گرنے سے حکومتی حلقوں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔

مقامی ریفائنریز اپنے آپریشنل چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں کیونکہ توانائی کمپنیوں کی جانب سے کم فرنس آئل لیا جارہاہے اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس اس کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیٹرول اور ڈیزل سے کم ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024