ڈیجیٹل فلمی میلہ: جب نوجوانوں کو لاک ڈاؤن بھی کچھ نیا کرنے سے نہ روک سکا
پاکستانی اور عالمی فلمی صنعت میں پیشہ ورانہ فلم سازوں کی طرف سے بنائی گئی فلموں کو ہمیشہ سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے لیکن فلم فیسٹیول کے تصور نے ان بہت سارے نئے فلم سازوں کے لیے بھی اپنے دروازے کھولے ہیں جنہیں ابھی اپنے خوابوں کی تعبیر پانا تھی۔
پھر انٹرنیٹ کی آمد اور فلموں کو آن لائن پیش کیے جانے کے تصور نے مزید سہولیات فراہم کیں، یوں پوری دنیا سے فلم ساز ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے لگے۔ آن لائن اور مادی طور پر ہونے والے ان فلم فیسٹیولز نے ایسے فلم سازوں کی معاونت کی، جو ابھی باقاعدہ فلم ساز نہیں بلکہ نوآموز ہیں یا آزادانہ طور پر فلم سازی سے جڑے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں ایسے فلم فیسٹیولز کی طویل تاریخ ہے۔ اس کے ذریعے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح عہدِ حاضر میں فلم کی تشکیل و تخلیق کا سفر آگے بڑھا اور کس طرح اس نے جدت کی نئی منزلیں طے کیں۔ پاکستانی فلم سازوں کی کئی فلمیں عالمی فلمی میلوں میں دکھائی گئیں، متعدد فلموں نے اعزازات بھی اپنے نام کیے لیکن یہ ایک الگ دریچہ ہے۔
پاکستان میں بھی ایسے فلمی میلوں کا ایک مختصر دور دکھائی دیتا ہے جن میں پاکستانی فلم سازوں سمیت دنیا بھر سے فلم سازوں کی فلمیں نمائش کے لیے شامل کی گئیں۔ 2016ء میں امریکا کے شہر نیویارک میں ’پاکستان فلم فیسٹیول‘ کا اہتمام بھی ہوا اور اس میں پاکستانی فنکاروں نے شرکت کی مگر یہ فلمی میلہ بھی اپنا تسلسل برقرار نہ رکھ سکا۔ یہ انداز بھی عالمی سطح پر پاکستانی فلموں کا بہترین تعارف بن سکتا ہے۔
پاکستان میں ایسے فلم فیسٹیولز کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے، لیکن ہم طائرانہ نظر ڈالیں تو نئی صدی کی شروعات پر پاکستان میں ایسے فلم فیسٹیولز کا ابتدائی سراغ ملتا ہے۔
2001ء میں ’کارا فلم فیسٹیول‘ اس سلسلے کی ابتدائی کڑی تھا۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا فلم فیسٹیول تھا جس میں دنیا بھر سے فلمیں شامل ہوئیں اس میں ہندوستانی سینما کے فنکاروں نے بھی شرکت کی اور ساتھ ساتھ نئے پاکستانی فلم سازوں کو بھی اپنی فلمیں پیش کرنے کی سہولت دی گئی۔
یہ فلمی میلہ بھی اپنا تسلسل جاری نہ رکھ سکا۔ اس فلم فیسٹیول کے بعد سے دورِ حاضر تک مختلف جامعات، میڈیا ہاؤسز، ثقافتی اداروں اور افراد کی کوششوں کے ذریعے بھی مختلف نوعیت کے فلم فیسٹیولز کا انعقاد کیا گیا، ان کی تفصیل کے لیے الگ دفتر درکار ہے۔ پاکستان میں ہونے والے چند نمایاں فلم فیسٹیولز کی فہرست درج ذیل ہے۔
سنیسٹ وَن فلم فیسٹیول (کراچی)
پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (کراچی)
ایشیا پیس فلم فیسٹیول (لاہور)
گندھارا فلم فیسٹیول (کراچی، دبئی)
گرین بلیف فلم فیسٹیول (اسلام آباد)
پاکستان انٹرنیشنل ماؤنٹین فلم فیسٹیول (اسلام آباد)
فلمز فیسٹیول (لاہور)
سِنی فیلیا فلیر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (کراچی)
تازہ ترین فلم فیسٹیول، جس کا یہاں تفصیلی تذکرہ ہے، اس کا نام ’سِنی فیلیا فلیر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ ہے۔ ’سِنی فیلیا‘ ایک اصطلاح ہے، جو سینما سے لگاؤ رکھنے والے شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے، یعنی سینما سے محبت کرنے والا اور ’فلیر‘ سے یہاں مراد ’اس محبت کا عکس اور رنگ ہے‘۔
تخلیقی عنوان سے ہونے والا یہ عالمی فلمی میلہ پاکستان کے شہر کراچی میں ان دنوں شروع کیا گیا جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محصور تھی۔
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) سے فارغ التحصیل علی کاظمی نے اس فلم فیسٹیول کی بنیاد رکھی ہے اور وہی اس کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ خود ایک نجی یونیورسٹی میں سینما پڑھاتے ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سینما ایک ایسا میڈیم ہے، جہاں نظری تعلیم (تھیوری) کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان طلبہ اور آزاد فلم سازوں کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں جن کے پاس وسائل اور تجربہ کم ہوتا ہے۔
کورونا کی وجہ سے ایک چیز بہت بہتر ہوئی کہ پاکستانیوں کا آن لائن مصرف بڑھا جس کی وجہ سے وہ آن لائن فلمیں دیکھنے پر زیادہ مائل ہوئے، اسی لیے جب 2021ء میں سِنی فیلیا فلیر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا آن لائن انعقاد ہوا تو 30 سے زائد ممالک سے فلم سازوں نے اپنی فلمیں بھیجیں جنہیں ناظرین کی کثیر تعداد نے آن لائن دیکھا۔
سِنی فیلیا فلیر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول نے اپنا تسلسل قائم رکھتے ہوئے دوسرے سال، یعنی رواں برس بھی اپنے انعقاد کو برقرار رکھا اور اس بار تبدیلی یہ تھی کہ یہ تمام فلمیں مختلف مقامات پر اسکرین کی گئیں۔ فلم بینوں نے رجسٹریشن کروائی اور انہوں نے وہاں جاکر وہ فلمیں دیکھیں۔
رواں سال اس فلمی میلے کے لیے انتظامیہ کو 600 سے زائد فلمیں موصول ہوئیں جن میں سے تقریباً 50 فلمیں شارٹ لسٹ ہوئیں۔ ان میں فیچر، شارٹ، اینی میشن اور دستاویزی فلمیں شامل تھیں۔
اس فلمی میلے کے انعقاد کے لیے مشاورتی پینل میں معروف اداکار طلعت حسین اور راحت کاظمی کے ساتھ ساتھ، معروف فلمی نقاد اور صحافی رافع محمود شامل تھے۔ رواں برس کے فلمی میلے کی جیوری عمران علی شیخ (اداکار) عرفانہ یاسر (صحافی) محمد فراز (اسکرپٹ رائٹر، شاعر) اور راقم پر مشتمل تھی۔
جب مرکزی شعبوں میں پاکستانی نوجوان فلم سازوں نے اپنی جگہ بنائی تو اس فلم فیسٹیول کے نتائج نے مجھے حیرت میں مبتلا کردیا۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بس ان نوجوانوں کو مواقع ملنے چاہئیں۔
اس عالمی فلمی میلے میں جس طرح پاکستانی نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے اس سے اشارہ مل رہا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارا جائے اور سرکاری اور نجی سطح پر ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی عملی طور پر حوصلہ افزائی کی جائے۔
پاکستان میں ایسے فلمی میلے منعقد ہونا خوشگوار بات ہے۔ اس کے لیے فیسٹیول ڈائریکٹر اور سِنی فیلیا فلیر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں فلم فیسٹیول کا انعقاد کیا جب پاکستانی فلمی صنعت زبوں حالی کا شکار ہے اور نجی جامعات بھی کورونا کی وجہ سے اس طرح کی سرگرمیاں کرنے سے تاحال قاصر ہیں۔ ایسے ماحول میں اس فلمی میلے کا انعقاد ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
پاکستان کے پیشہ ورانہ فلم سازوں کو ان میلوں کی سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی فلمی صنعت کے لیے اپنا نعم البدل بھی تلاش کرسکیں۔ پاکستانی فلمی صنعت کو ایسے نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا میں پیش کرنے کے لیے بھی یہ ثقافتی سرگرمیاں بہترین اقدام ہیں۔ اس فلم فیسٹیول میں گفتگو کا ایک سیشن بھی رکھا گیا تھا جس میں پاکستان میں سینما کی تدریس و تخلیق پر علی کاظمی، محمد فراز اور راقم نے تفصیلی مکالمہ کیا۔
اس فلمی میلے میں پیش کی گئی کہانیوں میں زندگی کے مختلف پہلو دکھائے گئے تھے، اگر ایک طرف زندگی میں مسرت کا پہلو تھا تو وہی زندگی ایک درد کے استعارے کے طور پر بھی پیش کی گئی تھی۔
اسکرین پر کیفیات کو پیش کیا گیا تھا۔ یہ وہ خواب تھے، جن کو نوجوان فلم سازوں نے دیکھا تھا اور وہ ان کی تعبیر چاہتے تھے۔ یہ فلمیں اور ان کے موضوعات آپ کو خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت و سوز میں بھی مبتلا کریں گے۔ ایسی ہی کیفیات میں ڈوب کر اردو زبان کے معروف شاعر قابل اجمیری نے لکھا تھا کہ
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے
ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے