حکومت کو فوری گھر بھیجنا چاہیے، مریم نواز کی رائے تبدیل
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے پچھلے مؤقف کے برعکس بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے گھر بھیجنا وقت کی ضرورت ہے۔
مریم نواز کا پہلے مؤقف تھا کہ عمران خان کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح ان کی حکومت پوری طرح بے نقاب ہوجائے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معزول وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ اس حکومت کے ہاتھوں عوام کی تکالیف دیکھ کر ان کا ذہن بدل گیا ہے اور اب وہ چاہتی ہیں کہ حکومت کو فوری طور پر گھر بھیج دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) تحریک عدم اعتماد کی حمایت کیلئے مشروط رضامند
حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ’پہلے میرا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنی چاہیے لیکن اس نے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اسے دیکھ کر بغیر کسی تاخیر کے اسے گھر بھیجنے کے لیے تحریک عدم اعتماد یا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا چاہیے‘۔
وہ جمعرات کو پارٹی رہنما بلال یٰسین سے ان کی رہائش گاہ پر عیادت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
رکن پنجاب اسمبلی بلال یٰسین 31 دسمبر کو موہنی روڈ پر مبینہ طور پر ان کے حریف گروپ کی طرف سے حملے میں زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے دونوں شارپ شوٹرز کو گرفتار کر لیا ہے اور واقعے کے مرکزی ملزم کو متحدہ عرب امارات سے واپس لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ مری جیسے واقعات پر حکومت کی بے حسی سب کے سامنے ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان پر ایوان کا اعتماد برقرار، 178 ووٹ حاصل کرلیے
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مری میں خاندان مر رہے تھے اور یہ لوگ بنی گالہ اور وزیر اعلیٰ ہاؤس میں سو رہے تھے، مری میں 36 گھنٹوں سے برف میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لیے کوئی نہیں پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، اس حکومت کی نااہلی کئی بار بے نقاب ہو چکی ہے اور اسے گھر بھیجنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایک ٹوئٹ میں مریم نواز نے کہا کہ پی ٹی آئی جس طرح عمران خان کے ساتھ سلوک کر رہی ہے وہ وقت پلٹنے کا واضح ثبوت ہے، یہ صرف شروعات ہے، وزیر اعظم نے شروع سے ہی سمجھوتہ کیا اور دھوکا دہی کی۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپوزیشن کی دوسری اہم جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے پنجاب اور مرکز میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز پر مطلوبہ تعداد کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے طنز کیا تھا۔
پیپلز پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جماعتوں کو اس امید پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تجویز دی تھی کہ اگر حکومت کے اتحادی چوہدری پرویز الہیٰ کو پنجاب میں حکومت بنانے کا آپشن دیا گیا تو مسلم لیگ (ق) بھی اس اقدام کی حمایت کرے گی۔
پی پی پی نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایسی تحریک پیش کرنے سے قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے خلاف ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت سے کسی کا ہاتھ نہیں ہٹا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بالکل ٹھیک ہیں، شیخ رشید
پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے 25 جنوری کو اتحادی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں پی ٹی آئی حکومت کو ختم کرنے کے آپشنز پر غور کیا جائے گا، ان آپشنز میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا بھی شامل ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم ان آپشنز پر غور کر رہے ہیں جن کا استعمال فوری طور پر اس حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے پی ٹی آئی کے اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل کی جائے گی۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے ڈان کو بتایا تھا کہ پارٹی مرکز یا پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر اسی وقت غور کرے گی جب یہ واضح ہو جائے کہ پاکستان میں آئین سب سے زیادہ مقدم ہے اور نظام کو جمہوری قوانین اور اصولوں کے مطابق بغیر مداخلت کے ہی چلایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جو لوگ عدم اعتماد لانے کے حق میں ہیں انہیں چاہیے کہ تجربے کے لیے پہلے مرحلے میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں جہاں اپوزیشن کے پاس واضح اور مؤثر اکثریت ہے۔