• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

ہم سانحہ مری سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟

شائع January 12, 2022
لکھاری کراچی میں مقیم ایک محقق ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم ایک محقق ہیں۔

سانحہ مری نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خبروں کے مطابق اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مری جانے والے 22 سیاح مری جانے والی برفیلی سڑکوں پر ٹھنڈ سے ہلاک ہوگئے۔ کئی ایجنسیوں نے ریلیف اور ریسکیو سرگرمیاں تو شروع کیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی اور لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے تھے۔

اس اندوہناک واقعے کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے اور مستقبل میں ان سے بچنے کے لیے معروضی اور غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہیں۔

مری اور اس کے اطراف کا ماحول بہت نازک ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسم سے اس ماحولیات پر ویسے ہی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ مری کی بلندی، خنک موسم، دلفریب نظارے اور یہاں تک آسان رسائی اسے سیاحوں کے لیے غیر معمولی کشش کا باعث بنا دیتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں یہاں کی برف باری کو دیکھنا یادگار تجربہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے سیاح یہاں امڈ آتے ہیں۔

مزید پڑھیے: سانحہ مری: گاڑیوں میں دم گھٹنے کے واقعات سے کس طرح بچا جائے؟

تاہم محدود داخلی اور خارجی راستوں والے کسی بھی مقام کے لیے زیادہ سیاحوں کا آنا ایک مسئلہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مری کی جانب تقریباً ایک لاکھ گاڑیاں جارہی تھیں جبکہ وہاں اتنی گاڑیوں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ برف سے ڈھکی سڑکوں کو فعال رکھنے کے لیے بھی کچھ ایس او پیز تیار کی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی صورتحال کے لیے ایس او پیز موجود تو تھیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ لہٰذا موجودہ صورتحال اور رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے ان ایس او پیز پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

پارکنگ کی جگہوں کی دستیابی اور ٹریفک جام سے بچنے کے لیے مری میں نجی گاڑیوں کا داخلہ بند کردینا چاہیے۔ متبادل کے طور پر ہر طرح کے موسمی حالات اور برفانی طوفان جیسے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری سامان سے لیس مضبوط وینز اور کوسٹر چلانی چاہئیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ برف میں پھنسنے کے خطرے کے بغیر مری کی سیر کرسکیں گے۔

اس کے علاوہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختصر فاصلوں پر ایمرجنسی رسپانس سینٹر بنانے چاہئیں۔ سیاحتی ادارے دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے گشت کا نظام بھی مرتب کرسکتے ہیں۔

سیاحوں کے لیے ٹؤرازم ایڈوائزری اینڈ انفارمیشن ایپ تیار کی جانی چاہیے۔ سیاحتی سیزن میں متعلقہ محکموں کو لازمی طور پر سیاحوں کی رجسٹریشن کا نظام شروع کرنا چاہیے تاکہ انتظامیہ سیاحوں کے بارے میں درست ڈیٹا، متوقع قیام کی مدت اور دیگر ضروری تفصیلات حاصل کرسکے۔

اس قسم کا سانحہ کسی بھی وجہ سے کسی بھی جگہ رونما ہوسکتا ہے۔ حکومتی محکموں کو چاہیے کہ ایسے تمام مقامات پر نظر رکھی جائے جہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ایسے مقامات میں سیاحتی مقامات، مزارات اور مذہبی اجتماع کی جگہیں، عارضی اور مستقل بازار اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: طوفانی رات، سرد بے حسی

بدقسمتی سے ہماری تاریخ ایسے حادثات سے بھری پڑی ہے جو حکام کی عدم توجہی کی بنا پر پیش آتے ہیں اور جن سے بچنا ممکن ہوتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ سوات جاتے ہوئے کئی سیاحوں کو مسلح ڈاکوؤں نے لوٹ لیا تھا۔ شمالی علاقہ جات کی سڑکوں پر ٹریفک جام اور حادثات اب عام ہوچکے ہیں۔ کئی مزارات دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

تمام مقامی انتظامیہ عرس کے دنوں میں مزارات پر ہونے والے رش سے باخبر ہوتی ہے۔ کچھ بنیادی منصوبہ بندی کے ذریعے زائرین کی سہولت اور تحفظ کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے زائرین کی تعداد کا تخمینہ، آمد و رفت کے ذرائع، رہائشی سہولیات، مختلف سرگرمیوں کے اوقات اور لوگوں کے جمع ہونے کے مقامات کی نشاندہی جیسے اقدامت ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ ممکنہ خطرات کی نشاندہی کی جانی چاہیے اور انہیں ختم کیا جانا چاہیے۔ مزار کی انتظامیہ کے ساتھ تعاون بھی بہت ضروری ہے۔

مزید پڑھیے: ’یہ برف نہیں تھی، آسمان سے موت گر رہی تھی‘

اس کے علاوہ جن علاقوں میں اوسط سے زیادہ لوگ جاتے ہیں وہاں کیرئنگ کیپیسیٹی [carrying capacity] کے تصور کو لاگو کرنا چاہیے۔ یہ ایک بنیادی تصور ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ایک محدود علاقے میں انسانوں، جانوروں اور نباتات کے برقرار رہنے کے لیے کتنے وسائل درکار ہیں۔ اس کا استعمال ماحولیاتی اثاثوں کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے نازک ماحولیات کو ہونے والے نقصان کی جانچ کے لیے بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سی پیک کے ذریعے طے شدہ مال بردار ٹریفک گلگت بلتستان سے گزرے گا تو اس سے ماحولیات کو نقصان پہنچے گا۔

اسی طرح شہروں میں رہنے والے متوسط طبقے کا بدلتا ہوا طرزِ زندگی بھی سیاحتی مقامات پر دباؤ میں اضافہ کررہا ہے۔ اگر صوبائی حکومتیں مری جیسے سانحے سے بچنا چاہتی ہیں تو انہیں سیاحتی سرگرمیوں کا سائنسی بنیاد پر انتظام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سیاحوں کا بہتر انتظام کرنا، نجی گاڑیوں کو محدود کرنا، ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کو ریگولیٹ کرنا، موسمی ایڈوائزری پر بروقت ردِعمل دینا، ایک قابلِ اعتماد مواصلاتی نظام وضع کرنا، ہنگامی ردِعمل میں بہتری لانا اور سیاحوں کی آگہی کے لیے پروگرام ترتیب دینا کچھ پیشگی شرائط ہیں۔


یہ مضمون 11 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر نعمان احمد

لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Azhar Jan 12, 2022 03:55pm
Very good suggestion, but writer must report investigated cause of casualities.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024