عدالت کے حکم پر پاک بحریہ کو سیلنگ کلب کی جگہ خالی کرنے کیلئے 3 دن کی مہلت
کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر پاکستان نیوی کو 72 گھنٹے کے اندر قیمتی اور قابل منتقل آلات کو سیلنگ کلب کی جگہ سے ہٹانے کی مہلت دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک اور معاملے میں پیش رفت میں سی ڈی اے نے بحری حکام کو مطلع کیا ہے کہ اس کی سملی ڈیم روڈ پر فارمنگ اسکیم کو بھی غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے اور شہری محکمہ اس زمین کو واپس لینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔
سی ڈی اے کی جانب سے جاری ایک نوٹس کے ذریعے ہدایت کی گئی ہے کہ 72 گھنٹے کے اندر اس جگہ سے تمام قیمتی اور قابل انتقال آلات کو ہٹا دیا جائے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’برائے مہربانی نوٹ کیا جائے کہ 72 گھنٹے کے اندر حکم کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں پوری عمارت اور اس سے متعلق پورا اسٹرکچر، اس میں موجود تمام مستقل اور قابل انتقال نصب چیزوں کو سی ڈی اے کی جانب سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مسمار کردیا جائے گا یا ہٹادیا جائے گا اور نقصان کی تمام ذمہ داری قبضہ کرنے والے کی ہوگی‘۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب گرانے کا حکم دے دیا
نوٹس کے مطابق بحری حکام نے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری زوننگ ریگولیشن 1992، جس میں اس علاقے کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک زون 3 نوٹیفائی کیا گیا ہے، کے تحت رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے راول جھیل کے ارد گرد ماحولیات کے لحاظ سے حساس قرار دیے گئے علاقے کو سیلنگ کلب بنایا۔
اس کے علاوہ بھی عمارت کی تعمیر مختلف حکومتی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ زمین پر تجاوزات اور غیر قانونی، بغیر اجازت تعمیر سے راول جھیل آلودگی کا شکار ہو رہی ہے جو کہ قدرتی ماحول کی بحالی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
سی ڈی اے وقتاً فوقتاً غیر قانونی اقدامات کو روکنے کے لیے نوٹس بھیجتا رہا ہے مگر اس پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ مزید یہ کہ نہ تو زمین الاٹ کی گئی تھی نہ ہی اس طرح کی کسی تعمیر کی سی ڈی اے کی جانب سے اجازت دی گئی تھی۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ایک رٹ پٹیشن کے اوپر جاری اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کلب کو پہلے ہی سی ڈی اے کی جانب سے سیل کیا جا چکا ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کا حکم
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اور اپنے محکمانہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان نیوی کی جانب سے راول جھیل کے کنارے قائم غیر قانونی اور غیر اجازت یافتہ اسٹرکچر کو دیے گئے تین ہفتے کے وقت میں مسمار کردیا جائے گا۔
سی ڈی اے کے ریجنل ڈائریکٹر پلاننگ کی جانب سے ڈائریکٹر نیوی فارمز کو لکھے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ 13 مارچ 1993 کو جاری این او سی جس میں سملی ڈیم روڈ زون ٹو کے علاقے میں پاکستان نیوی ایگرو فارمنگ اسکیم کی اجازت دی گئی تھی غیر قانونی ہے۔
نوٹس کے مطابق اسکیم غیر قانونی ہے اور اس این او سی کے تحت حاصل زمین سی ڈی اے نے واپس لینی ہے اور اس سلسلے میں سی ڈی اے آرڈیننس 1960 پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔
مزید کہا گیا ہے کہ آپ کو 7 دن کا نوٹس دیا جاتا ہے کہ سی ڈی اے، پی این فارمز کا کنٹرول سنبھال لے گا اور قانون کے مطابق کارروائی کرے گا، اس مقصد کے لیے آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ تمام متعلقہ دستاویزات، زمین سے متعلق تمام ریکارڈ، کام، الاٹمنٹ اور دیگر معاملات کے لیے تیار رہیں۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی کلب اور فارم ہاؤس کی نیشنل پارک کی زمین پر تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور اس کو منہدم کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: راول جھیل پر 'غیرقانونی' تعمیرات کا معاملہ، پاک بحریہ کے سربراہ کو نوٹس، تحریری جواب طلب
عدالت نے سابق نیول چیف ظفر محمود عباسی اور دیگر حکام کے خلاف غیر قانونی تعمیر کی اجازت دینے پر مجرمانہ کارروائی کا مقدمہ شروع کرنے کی بھی ہدایت دی تھی۔
45 صفحات پر مشتمل فیصلے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کو نیول فارم قبضے میں لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیوی نے راول جھیل کے کنارے پر واقع زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے جو کہ نیشنل پارک قرار دیا گیا علاقہ ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلب کی عمارت کی ماحولیاتی لحاظ سے حساس علاقے میں تعمیر کو کئی لازمی قابل عمل قوانین کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے کلب کو کسی بھی صورت ریگولرائز نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ زمین کا قبضہ بغیر کسی قانونی اختیار اور دائرہ کار کے غیر قانونی تھا اور نیوی کو راول جھیل پر اپنی تمام سرگرمیوں کو روکنے اور زمین اسمال ڈیمز آرگنائزیشن کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت نے راول جھیل اور ماحولیاتی نقصانات کا باعث بننے والی وجوہات جاننے کے لیے قائم ماحولیات کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز حسین پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا اور اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ (آئی ڈبلیو ایم بی) کو راول جھیل کے گرد و نواح میں قدرتی ماحول بحال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
فیصلے میں آڈیٹر جنرل کو پی این فارمز اور سیلنگ کلب کے فرانزک آڈٹ کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ اس معاملے میں ہونے والے نقصان کا پتہ لگا کر ذمہ دار افسران سے وصولیاں کی جائیں۔
مزید پڑھیں: بنی گالہ میں 20 برس کی تعمیرات کا ریکارڈ طلب
اپنے 2020 اگست میں لکھے گئے جواب میں سابق نیول چیف ظفر محمود عباسی نے دعویٰ کیا تھا کہ راول جھیل کے کنارے واقع عمارت نہ تو روایتی لحاظ سے کلب ہے نہ ہی کوئی کاروباری مقام ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کھیلوں کی سہولیات ماہرین ماحولیات کی اجازت سے وفاقی حکومت کی ہدایت پر بنائی گئی تھیں۔
اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان نیوی نے پی این فارمز اور پی این سیلنگ کلب بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر غیر قانونی طریقے اور موجودہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضے میں لیے۔
فیصلے میں شہری محکموں جیسے سی ڈی اے اور پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ متعلقہ اتھارٹیز اور ریگولیٹرز صرف نوٹس جاری کر کے مطمئن نظر آئے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو اہم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا۔
ایس سی بی اے کے سیکریٹری وسیم ممتاز ملک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ عدلیہ کی آزادی، قانون کی بالادستی کی مثال ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے امید ظاہر کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا اور فیصلے میں طے کیے گئے اصولوں کی حکومت اور ریاستی محکموں کی جانب سے مستقبل کے منصوبوں میں پیروی کی جائے گی۔