مری میں برفباری کے دوران اموات: اقدامات نہ کرنے پر لوگ حکومت پر برہم
پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام مری میں برفباری کے دوران گاڑیوں کے پھنسنے اور شدید ٹھنڈ میں لوگوں کی اموات ہوجانے پر جہاں پوری قوم افسردہ دکھائی دی، وہیں لوگوں نے پیشگی اقدامات نہ کرنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔
مری میں موسم سرما کے دوران برفباری ہوتے ہی پاکستان بھر کے لوگ سیاحت کے لیے وہاں کا رخ کرتے ہیں۔
حالیہ موسم سرما میں مری میں برفباری کا سلسلہ گزشتہ ماہ دسمبر کے آخر سے شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔
مری میں مسلسل برفباری کی وجہ سے پاکستان کے دور دراز علاقوں کے لوگ بھی گھومنے کے لیے وہاں پہنچے تھے اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے 5 جنوری کو اپنی ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ مری میں ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں۔
مری میں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں کے داخل ہونے اور برفباری کا سلسلسہ تیز ہونے کے بعد وہاں حالات سنگین ہوتے گئے اور 8 جنوری کو وزیر داخلہ شیخ رشید نے بتایا کہ مری کو آفت زدہ قرار دے کر اسے ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔
وزیر داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ برفباری کی وجہ سے 16 سے 19 لوگ ٹھنڈ میں اپنی ہی گاڑیوں میں اور کوئی محفوظ مقام نہ ملنے کی وجہ سے فوت ہوگئے۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ مری میں ہنگامی صورتحال نافذ کرکے فوج، پولیس اور دیگر سول اہلکاروں کی بھاری نفری کو مدد کے لیے بھیج دیا گیا۔
مری میں شدید برفباری، لوگوں کی کم علمی اور انتظامیہ کی جانب سے پیشگی کوئی حفاظتی اقدامات نہ کیے جانے پر لوگوں نے حکومت پر خوب تنقید کی اور ٹوئٹر پر ’مری اور اسنو فال‘ کا ٹرینڈ ٹاپ پر آگیا۔
سوشل میڈیا پر جہاں لوگوں نے سیاحتی مقام پر جانے والے افراد کو قصور وار ٹھہرایا، وہیں لوگوں نے المناک اموات کا ذمہ دار مقامی انتطامیہ اور حکومت کو بھی قرار دیا اور کہا کہ انتظامیہ کو ایسے حالات میں اپنی ذمہ داری کا مطاہرہ کرنا چاہیے تھا۔
لوگوں کے مطابق انتظامیہ نے مری جانے والی ٹریفک کو پہلےسے ہی نہیں روکا اور حالات خراب ہونے کے باوجود انتظامیہ سوتی رہی۔
صحافی عمر باچہ نے ٹوئٹ کی کہ مردان کے چار دوست مری میں برفباری اور شدید سردی کی وجہ سے چل بسے۔
بعض افراد نے لکھا کہ جو حکومت مقامی 6 ہزار سیاحوں کوآفت سے نہیں نکال سکتی، وہ غیر ملکی سیاحوں کو آنے کی دعوت دیتی ہے۔
بعض لوگوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ مری میں لوگوں کی اموات کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرنا بند کریں۔