شمالی کوریا کا 'بلیسٹک میزائل' کا تجربہ، خطے میں امن کیلئے کوششیں خطرے میں
شمالی کوریا نے ایک اور بلیسٹک میزائل کا تجربہ کرلیا، جس کے نتیجے میں خطے میں امن کے لیے ہونے کوششیں خطرے میں پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے
غیرملکی خبر ایجنسی رائٹرز کےمطابق شمالی کوریا نے مشرقی ساحل سے مبینہ بیلسٹک میزائل فائرکیا، جبکہ اس سے چند گھنٹے قبل ہی جنوبی کوریا کےصدرمون جے اِن نے ایک ریل لائن کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی جس سے انہیں امید ہے کہ وہ منقسم جزیرہ نما کوریا کوجوڑ دےگا۔
شمالی کوریا کی جانب سے اکتوبر کے بعد کیے گئے پہلے تجربے نے رہنما کم جون ان کے نئے سال کے اس عزم کو تقویت دی جس میں انہوں نے جنوبی کوریا اور امریکا کے ساتھ معطل بات چیت کے دوران غیرمستحکم عالمی حالات سے نمٹنے کے لیے فوج کو مزید طاقتوربنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
امریکا نے ڈی پی آر کےبلیسٹک میزائل تجربے کی مذمت کی اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک ترجمان نے ایک بیان جاری کیا جس میں پیانگ یانگ کے ساتھ مذاکرات کے فیصلے پرنظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : شمالی کوریا کا ہائپرسونک گلائیڈنگ میزائل کا کامیاب تجربہ
بیان میں کہا گیا ہے کہ تجربے نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے پڑوسی ممالک کےلیے خطرہ کھڑا کردیا ہے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے کہا کہ مشتبہ میزائل زمین سے مشرقی جزیرے پر سمندر میں مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بج کر دس منٹ پر فائر کیا گیا۔
انہو ں نے کہا کہ چندگھنٹوں بعد ہی مون نے شمالی کوریا کے بارڈر کے قریب جنوبی کوریا کے مشرقی ساحل پر واقع شہر گوزانگ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایک نئی ریلوے لائن کا سنگ بنیاد رکھا، جس کو انہوں نے جزیرہ نما خطے میں امن اور توازن کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔
تقریب میں بات کرتے ہوئے مون نےتسلیم کیا کہ تجربے نےتناو کے خدشات کو جنم دیا ہے اور شمالی کوریا سے مذاکرات کے لیے مخلصانہ کوششوں کا مطالبہ کیا۔
انہوں نےکہا کہ ہمیں صورت حال پر بنیادی طورپر قابو پانے کے لیےمذاکرات کی امید نہیں چھوڑنی چاہیے، اگر دونوں کوریا مل کرکام کریں اور اعتماد قائم کریں تو ایک دن امن ضرور قائم ہوگا۔
یاد رہے کہ 2018 میں کم اور مون کی ملاقات میں دونوں مملک کو ریل کےذریعےجوڑنا ایک بنیادی نکتہ تھا لیکن وہ تمام کوششیں بےنتیجہ رہیں کیونکہ بات چیت کا مقصد 2019 میں عائد کی گئیں عالمی پابندیوں کے بدلے شمالی کوریا کو اپنی جوہری طاقت کو چھوڑنے پر راضی کرنا تھا۔
مزید پڑھیں : شمالی کوریا کا ’ایٹمی صلاحیت‘ کے حامل پہلے کروز میزائل کا تجربہ
کم کی نئے سال کی تقریر میں جنوبی کوریا کی طرف سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں یا امریک کی طرف سے بات چیت کی پیش کش کا کوئی ذکر نہیں تھا تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم نے سفارت کاری کے دروازے بند کر دیے ہیں۔
جنوبی کوریا کی قومی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس میں شمالی کوریا کے تجربے پر خدشات کا اظہار کرتےہوئے قرار دیا کہ اندورنی اور بیرونی استحکام بہت ضروری ہے اور شمالی کوریا سے مذاکرات کی طرف واپس آنے کا مطالبہ کیا۔
جاپان کے وزیردفاع نےکہا کہ مشتبہ بلیسٹک میزائل تقریبا 500 کلومیٹر تک ہدف حاصل کرسکتا ہے۔
جبکہ جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا نے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال سے شمالی کوریا بار بار میزائل تجربے کر رہاہے جو کہ انتہائی قابل افسوس بات ہے۔
جنوبی کوریا کے جے سی ایس کا کہنا ہے کہ میزائل چین کے ساتھ شمالی سرحد پر واقع صوبے جگانگ سے فائر کیا گیا تھا، یہ وہی صوبہ ہے جہاں شمالی کوریا نے ستمبر میں اپنے پہلے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں نے شمالی کوریا پر تمام بیلسٹک میزائل اور جوہری تجربےکرنے پرپابندی لگا رکھی ہے ۔
جنوبی کوریا کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی افواج کئی ہفتوں سےسرمائی مشقیں کر رہی ہیں۔
جنوبی کوریا کےجے سی ایس نےاپنے ایک بیان میں کہا کہ ہماری فوج امریکا کےساتھ قریبی تعاون کے ساتھ کسی بھی ممکنہ اضافی تجربے کی صورت میں ہرطرح کی صورت حال کےلیے ہمہ وقت تیار ہے۔
شمالی کوریا کووڈ-19 کے آغاز سے مزید تنہائی کا شکار ہے، سرحدوں پر لاک ڈاون لگانے سے تجارت انتہائی سست ہوگئی ہے اوربالمشافہ سفارتی مصروفیات بھی روک دی گئیں ہیں۔
پیانگ یانگ نے مختلف قسم کےنئے، مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کے تجربے جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں اکتوبر میں آبدوز سے لانچ کیا جانے والا میزائل تجربہ بھی شامل ہے، اور اس حوالے سے ان کی دلیل تھی کہ دوسرے ممالک کے پاس پہلے سے موجود ہتھیاروں کی تیاری پر انہیں جرمانہ نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں : ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا جانے والے پہلے امریکی صدر بن گئے
شمالی کوریا کے تجربے کے چند ہی گھنٹوں بعد جاپان نے اعلان کیا کہ اس کے وزیرخارجہ اور وزیردفاع جمعے کو اپنے امریکی ہم منصبوں سے بات چیت کریں گے۔
بیجنگ میں ایک معمول کی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کےترجمان وانگ وین بِن نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ وسیع سوچ کا مظاہرہ کریں، جزیرہ نما خطے میں امن اور استحکام کی قدر کریں اور سیاسی حل کے لیے بات چیت بڑھانے پر قائم رہیں۔
وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون نے اس حؤالے سے فوری طور پر جواب نہیں دیا تاہم اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے رواں ہفتے کے شروع میں نیوز بریفنگ میں امریکا کی شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن کا دشمنی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ بغیر کیس پیشگی شرائط کے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔