خیبر پختونخوا میں کووڈ ویکسینیشن کی کم شرح سے طبی ماہرین پریشان
پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا میں طبی ماہرین نے کورونا وائرس ویکسینیشن کی کم شرح پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل قریب میں صوبے میں اومیکرون کے پھیلاؤ کے پیش نظر ویکسینیشن اور بوسٹر ڈوز لگانے کے عمل میں تیزی کا مطالبہ کیا ہے ۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر پروفیسر خالد محمود نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آنے والے دنوں میں کورونا وائرس کا نیا ویریئنٹ اومیکرون خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں کورونا مثبت کیسز میں اضافے کا سبب بنے گا کیونکہ یہ اس انفکیشن کا کورونا ویکسین کی دو خوراکوں سے رکنا مشکل ہے ۔
مزید پڑھیں: ملک میں کورونا کی پانچویں لہر تیزی سے پھیل رہی ہے، این سی او سی
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ویکسین کی دوسری ڈوز 6ماہ قبل لگوائی تھی، ان کو خصوصی طور پر تجویز کی جاتی ہے کہ وہ بوسٹر ڈوز لگوائیں جبکہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی ویکسینیشن مکمل کرلی ہے وہ لازمی بوسٹر ڈوز لگوائیں کیونکہ اطلاعات ہیں کہ ویکسین لگوانے والوں کی نسبت ویکسین نہ لگوانے والوں میں وائرس کی شدت زیادہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں مجموعی طور پر اومیکرون ویریئنٹ سے شرح اموات سابقہ ویریئنٹ ڈیلٹا اور دیگر اقسام کی نسبت کم ہے ۔
اومیکرون سے اموات کی شرح دس لاکھ میں سے 1.47 فیصد ہے جو ایک سال قبل ریکارڈ کی گئی شرح اموات کا دسواں حصہ ہے جبکہ سب سے پہلے وائرس کی نئی قسم کے بارے میں آگاہ کرنے والے ملک جنوبی افریقہ میں بھی کسی قابل ذکر شرح اموات کے بغیر ہی اومیکرون کیسز تیزی سے ختم ہوگئے ہیں۔
پروفیسر خالد کا مزید کہنا تھا کہ کورونا وائرس کیسز میں کمی آرہی تھی جس کی وجہ سے لوگ بے فکر ہو گئے اور فیس ماسک، ہاتھ دھونا، سماجی فاصلہ او اس جیسی دیگر احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا چھوڑ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا کی نئی لہر کے آغاز کے واضح شواہد نظر آرہے ہیں، اسد عمر
ان کا کہنا تھاکہ کسی کو بے فکر نہیں ہونا چاہیے اور ہمیں سماجی فاصلہ، فیس ماسک، ہاتھ دھونا، سینیٹائزر کا استعمال جاری رکھنا چاہیے اور ویکسین لگوانی چاہیے ۔
وائس چانسلر آف خیبرپختونخوا میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ضیاالحق کا کہنا تھا کہ اومیکرون کے پیش نظر مکمل ویکسین شدہ افراد کو تجویز کرتے ہیں کہ وہ بوسٹر ڈوز لگوائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کے ایم یو پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری صوبے کی مرکزی لیب ہے جہاں 24گھنٹے میں روزانہ 4ہزار سے 6ہزار ٹیسٹ کیے جارہےہیں، لیبارٹری محکمہ صحت اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر سے منسلک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں بنایا گیا جدید جینومک ٹیکنالوجی سینٹر ایس او پیز کے تحت اومی کرون سمیت وائرس کی دیگر اقسام کا جائزہ اور نگرانی کررہا ہے اور تمام حاصل شدہ معلومات محکمہ صحت اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کو رپورٹ کی جارہی ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں ’اومیکرون‘ کے 49 کیسز رپورٹ
پروفیسر ضیا کا کہنا تھا کہ لیبارٹری ڈیٹا کے تحفظ اور مریض کی پرائیویسی کے پیش نظر ٹیسٹ کے نتائج کا اعلان نہیں کرتی، کورونا کے کُل 205 مثبت نمونوں کا اب تک جائزہ لیا جاچکا ہے اور حاصل شدہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ تمام نمونے ڈیلٹا ویریئنٹ کےہیں اور اس میں کوئی بھی اومیکرون ویریئنٹ نہیں ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے باوجود ہمیں بہت سخت کورونا کی پانچویں لہر کا سامنا ہے جس میں اومیکرون کا نمایاں طور پر سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اومیکرون کے کیسز کے دگنا ہونے کی مدت دو سے تین دن ہےجو کہ کیسز کا سونامی لاسکتا ہے جبکہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے دوگنے ہونے کا وقت دو ہفتے ہے۔
پروفیسر ضیا نے کہا ہے کہ اومیکرون ویریئنٹ میں زیادہ تر کیسز غیرعلامتی ہیں اسی لیے ہوسکتا ہے کہ مثبت کیسز کی تعداد پاکستان میں رپورٹ کیسز سے کہیں زیادہ ہو۔
ان کامزید کہنا تھا کہ خوش قسمتی سے اومیکرون سے شرح اموات ڈیلٹا کی نسبت کم ہے لیکن جنوری کے آخر تک غیرویکسین شدہ یا مکمل ویکسین نہ کرانے والے اور دیگر کمزور افراد میں کیسز کی تعداد بڑھنے سے ہسپتال میں مریضوں کی تعداد بڑھے گی اور اس کے ساتھ ہی اموات میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 2022 میں کووڈ-19 کی وبا کا خاتمہ ہو سکتا ہے، سربراہ عالمی ادارہ صحت
ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ لوگ تھک چکے ہیں، شاید یہ آخری لہر ہو کیونکہ اکثر لوگ ویکسین لگوا کر یا قدرتی طور پر وبا کے خلاف قوت مدافعت حاصل کر لیں گے لیکن وبا کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں اس کے ناپسندیدہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ وائرس کی شدت ، اسپتالوں میں مریضوں کے داخلے اور اموات کی تعداد کو کم کرنےکے لیے ہمیں خود اور ہمارے اردگرد لوگوں کو ویکسین لگوانی چاہیے اور ایس او پیز پر عمل در آمد کرنا چاہیے۔