• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

خیبر پختونخوا: سرکاری ہسپتالوں کی رہائش گاہوں سے قبضہ ختم کروانے کا فیصلہ

شائع January 2, 2022
—تصویر: ٹوئٹر
—تصویر: ٹوئٹر

پشاور: محکمہ صحت نے اضلاع کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر سِول اور ڈسٹرک ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کی رہائش کے لیے قائم گھروں میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک باضابطہ خط میں سیکریٹری صحت محمد طاہر اورکزئی نے صوبے کے تمام ضلعی ہیلتھ افسران سے کہا ہے کہ وہ متعلقہ ہسپتالوں میں غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ سرکاری رہائش گاہوں کی فہرستیں قابضین کے ناموں کے ساتھ مرتب کریں اور انہیں 31 جنوری تک ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز آفسز میں ڈائریکٹر (ایڈمنسٹریشن) کو فراہم کریں۔

انہوں نے کہا کہ اکثر ڈاکٹر اور عملے کے دیگر ارکان رہائش کی عدم دستیابی کے بارے میں شکایت کرتے ہیں جس سے مریضوں کی دیکھ بھال بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پشاور ایئرپورٹ پر غیر رجسٹرڈ کووڈ لیبز کے کام کرنے کا انکشاف

سیکریٹری صحت نے ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس سے کہا ہے کہ وہ سرکاری رہائش گاہوں اور ان پر غیر قانونی قابضین کی فہرست بنائیں اور یہ تفصیلات متعلقہ ڈی ایچ او کو فراہم کریں۔

ساتھ ہی ڈی ایچ اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان فہرستوں کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر (ایڈمنسٹریشن) اور متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو بھیجیں ساتھ ہی ان سے گھروں پر غیر قانونی قابضین کے خلاف کریک ڈاؤن کی درخواست کریں۔

سیکریٹری صحت نے ڈپٹی کمشنرز سے درخواست کی کہ وہ پولیس کے ساتھ مل کر ان رہائش گاہوں کو خالی کروانے کی حکمت بنانے کے لیے اجلاس طلب کریں۔

انہوں نے باضابطہ طور پر ڈائریکٹر (ایڈمنسٹریشن) سے کہا کہ وہ اس عمل کو مربوط بنائیں اور تعزیراتی کارروائی سے بچنے کے لیے 31 جنوری تک ایک رپورٹ پیش کریں۔

محکمہ صحت کے افسران نے ڈان کو بتایا کہ صوبے کے کئی سرکاری ہسپتالوں میں عملے کے لیے بنائی گئی رہائش گاہیں ایک طویل عرصے سے دیگر محکموں کے افسران کے زیر استعمال ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: خیبر پختونخوا میں 30 فیصد آبادی کو کورونا ویکسین لگادی گئی

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال بھی ایک ایسا ہی نوٹیفیکیشن جاری ہوا تھا تاہم سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے قابضین نے رہائش گاہیں خالی نہیں کیں۔

افسران کا کہنا تھا کہ مریضوں کو بلا تعطل سہولیات کی فراہمی کے لیے محکمہ صحت کو مختلف اضلاع میں تقریباً 90 بنگلے اور 40 فلیٹ خالی کروانے ہیں تاکہ انہیں ڈاکٹروں اور طبی عملے میں تقسیم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری رہائش کے بغیر ہسپتالوں میں پوسٹنگ ڈاکٹروں اور عملے کے لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہوتی۔

ایک افسر نے ڈان کو بتایا کہ ’چونکہ ہم [محکمہ] سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو رہائش فراہم نہیں کرسکتے، اس وجہ سے خصوصاً رات کے اوقات میں مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کی رہائش گاہوں پر پولیس، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ، تعلیم، کمیونیکیشن اینڈ ورکس، لائیو اسٹاک اینڈ پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، باچا خان یونیورسٹی، ضلعی انتظامیہ، ضلعی صحت کے دفاتر اور ضلعی عدلیہ، تحصیل میونسپل انتظامیہ، واپڈا کے اہلکاروں محکمہ صحت کے سابق ملازمین، لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، اور ڈسٹرک اکاؤنٹ آفس نے قبضہ کیا ہوا ہے۔

محکمہ صحت کے افسران کا کہنا تھا کہ خواتین ملازمین کو اس مسئلے سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ انہیں کام کی جگہوں سے دور مناسب اور محفوظ رہائش تلاش کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر غیر قانونی قبضہ ختم کرکے رہائش گاہیں مستحق ملازمین کے حوالے کردی جائیں تو مریضوں کو دی جانے والی سہولیات میں بہت بہتری آجائے گی۔


یہ خبر 02 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024