آئٹم گرلز بریکنگ نیوز
انٹرنیٹ کے مطابق آئٹم نمبر ایک ایسی میوزیکل پرفارمنس ہے جس کا ایک تو یہ کہ فلم کی کہانی سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور دوسرا یہ کہِ اس میں ایک ہوش ربا رقاصہ مختصر کپڑے پہن کر ہیجان انگیز ناچ پیش کرتی ہے تاکہ اُس فلم کی مارکیٹنگ میں مددگار ثابت ہو سکے ۔
اب ذرا یاد کرنے کی کوشش کریں، پاکستانی نیوز چینلز پر اکثر ایسی خبریں یا پروگرام نشر ہو جاتے ہیں جن کا یقیناً خبر کی دنیا سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، لیکن وہ اِس قدر اوسان خطا کردینے اور ہوش اڑا دینے والے ہوتے ہیں کہ چینل کی مارکیٹنگ اور زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہو تے ہیں۔
آئٹم نمبر کی اِس تعریف کو مکمل طور پر اپنانے میں ہمارے نیوز چینلز کے تھنک ٹینکس کو سب سے بڑی رکاوٹ کا سامنا آئٹم نمبرز کی جان یعنی آئٹم گرلز کی صورت میں کرنا پڑا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مجبوریوں میں گھرے اور پابندیوں میں پلے پاکستانی معاشرے میں آئٹم گرلز کو استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن اِنکی چھٹی حس یہ ضرور کہتی تھی کہ اگر یہ ملک بجلی کی کمی کے باوجود ایٹم بم بنا سکتا ہے تو ہم بھی آئٹم گرل کے بغیر دھماکے دار آئٹم نمبر پیش کر سکتے ہیں، لہٰذا نہوں نے سب سے پہلے نیوز کے ہوش ربا عنصر بریکنگ نیوز کا انتخاب کیا۔
صحافت کی زبان میں بریکنگ نیوز ایسی خبر کو کہا جاتا ہے جو کسی حالیہ ایشو پر مبنی ہو اور براڈ کاسٹر کی نظر میں اسکی اہمیت اور افادیت اس قدر ہو کہ شیڈیول کے مطابق جاری کسی بھی پروگرام کو روک کر ناظرین کی آگاہی کے لئے اُسے برا ہ راست نشر کیا جائے ۔
لیکن پاکستان میں بریکنگ نیوز کی یہ حالت ہے کہ وہ صحافت کے معیار اور اصولوں کو روندتی ہوئی آئٹم نمبرز کی طرح عین اس وقت اچانک آن دھمکتی ہے جب چینلز کو فلم کی رفتار کمزور ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ ماضی میں جھانکنے کی ضرورت نہیں، ابھی حال ہی میں مختلف چینلز پر ملکی سیاست سے متعلق پروگرامز جاری ہی تھے کہ ایک لہلہاتی بریکنگ نیوز جلوہ گر ہوئی جس کے مطابق سلمان خان اور شاہ رخان کا جھگڑا آخر کار ایک افطار پارٹی میں اختتام پذیر ہوگیا۔ بالکل اسی طرح نو بجے کے بلیٹن کی ہیڈلائن نیوز نے اپنے ششکے اس خبر کے ساتھ کرائے کہ بالی وڈ کی حسینہ سنی لیون کو انٹرنیٹ پرسب سے زیادہ سرچ کی جانے والی دوشیزہ کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے۔
ایسی نشہ آور خبروں پر بھلا عام پاکستانی کیسے یہ سوچنے کی جرات کرسکتا ہے کہ انٹرٹینمنٹ کے لئے ایسی خبریں بریکنگ یا ہیڈ لائن نیوز میں نہیں بلکہ گوسپ شو یا پھر کسی بھی بلیٹن کے انٹرٹینمنٹ سیکشن کا حصہ ہونی چاہئیں؟
اب سن دو ہزار گیارہ کے اس واقعے کو یاد کر تے ہیں کہ جب پوری دنیا نے ایک ساتھ پاکستان کو گُھور کے دیکھا تھا۔ ایبٹ آباد آپریشن اور اسامہ کی ہلاکت کی خبر جب آیی تو ہمارے نیوز چینلز کے تھنک ٹینکس نے اس موقع پر بھی اپنے ٹیلنٹ کو زنگ نہیں لگنے دی اجسکی وجہ سے بریکنگ نیوز پلک جھپکتے ہی آئٹم نمبر بن گئی۔ ہوا کچھ ہوں تھا کہ جس وقت یہ خبر نشر ہوئی، اُس وقت ملک کے ایک معروف نیوز چینل سمیت مختلف چینلز نے اسامہ کی ایک مبینہ طور پر ہلاک شدہ حالت میں لی گئی تصویر بھی نشر کر دی۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اسامہ کی لاش کی تصاویر تو ابھی جاری ہی نہیں کی گئیں تھیں۔ بریکنگ نیوز کے اس آیٹم نمبر میں ملبوس اس تصویر نے بہرحال بہت سوں کو چینلز دیکھنے پر مبجور کیا اور اور تو اور ریٹنگز کی ہوس کا مارا انٹرنیشنل میڈیا بھی اس آیٹم نمبر کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔
بریکنگ نیوز کا ایک اور آیٹم نمبر وہ ہے جس میں آفریدی بھایی نے کرکٹ بال کو چبا لیا تھا ۔ نیوز چینلز کے آئٹم نمبرز کے میلے میں تب اِس ملک کے بہت سے اینکر پرسنز نے تازہ تازہ انٹری دی تھی۔
پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کو تو شکر ادا کرنا چاہیئے کہ اگر بجلی کم پڑے تو وہ باہر سے امپورٹ کر سکتے ہیں، وزرائے اعظم یا گورنر کی سپلائی کم ہو تو باہر سے امپورٹڈپرائم منسٹر اور گورنر بھی منگوائے جا سکتے ہیں، لیکن میڈیا کے تھنک ٹینکس ایسا نہیں کر سکتے۔ ان بیچاروں کو تو آل ان ون ٹائپ ہوسٹ درکار ہوتی ہے جو شعبان کے مہینے میں جیری اسپرنگر شو سے متاثر ہو کر اپنے شو میں جھگڑے کراوئے، طلاقیں کروائے اور رمضان کا چاند نظر آتے ہی دوپٹہ اوڑھ کر قصیدہ بردہ شریف پڑھتی نظر آئے ۔ان مظلوموں پر سب سے بھاری وقت رمضان ٹرانسمیشن کی صورت میں آتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ٹرانسمیشن کی مناسبت سے میڈیا ہوسٹس کا قحط پڑ جا تا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِس بار ایک نیوز چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کی ہوسٹ ایک ایسی لڑکی تھی جو کہ اس سے پہلے میوزک چینل کی مشہور و معروف وی جے رہ چکی تھی۔ رمضان ٹرانسمیشن کرنے سے پہلے اس کا کرئیر میوزکل شوز اور کانسرٹ کی ہوسٹنگ کرتے اور ماڈلنگ میں اپنے جلوے دکھاتے گزرا تھا۔ ایسا ہی ایک ہوسٹ جوکہ پچھلے بیس سالوں سے صرف سنگر تھا، دوسرے چینل پر اپنا روحانی فریضہ ادا کر رہا تھا۔ ،وہ ٹرانسمیشن کے دوران انتہایی مطمئین نظر آیا کیونکہ رمضان سے پہلے ہی اُس نے میوزکل فریضہ اپنی البم ریلیز کر کے ادا کر دیا تھا۔
پھر لنُڈے کے ڈرامے بھی آئٹم نمبر کی بہترین مثال ہیں کیونکہِ انکی کہانیوں اور کرداروں کا پاکستانیوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستانی مُلاؤں کو تو چھوڑیں،ان ٹرٹینمنٹ چینلز کے تھنک ٹینکس کی نظر میں بھی ان ڈراموں کی اداکارئیں وہ دعوتِ نظارہ دیتی ہیں کہ اس برائی کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے وڈیوا یڈیٹر زکو اہم قومی فریضہ سونپ دیا جاتا ہے جو دن رات ایک کر کے ترک اداکاراؤں کے لباس کو دھندلا کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایسی دھندلاہٹ فوراً توجہ حا صل کر تی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ دیکھ کر بالی وڈ اور ہالی وڈ کی اداکارائیں خوشی سے لہراتی ہونگی کیونکہ یہ قہر ان پر نازل نہیں ہو رہا اور وہ ہر روز پاکستانی چینلز پر دعوتِ نظارہ دے سکتی ہیں۔ ویسے بھی ہماری قومی عینک سے صرف وہی نظر آتا ہے جو قانونی ہو جبکہ معاشرے ہوتا وہی ہے جو غیر قانونی ہو۔