نیشنل پارک کی اراضی پر تجاوزات، عہدیداران عدالت میں طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) پر ’قانون کی من پسند شقوں کے نفاذ‘ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مارگلہ ہلز نیشنل پارک (ایم ایچ این پی) پر نئے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) کی جانب سے تجاوزات کے سلسلے میں سیکریٹری دفاع کو طلب کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایم ایچ این پی میں ڈیفنس کمپلیکس کے ارد گرد باؤنڈری وال کی 'غیر قانونی' تعمیر کے خلاف ایک متاثرہ دیہاتی کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سی ڈی اے کے وکیل حافظ عرفات احمد چوہدری، عرفان عزیز خان ڈائریکٹر جنرل (ماحولیات)، فیصل نعیم ڈائریکٹر (بلڈنگ کنٹرول) اور افنان عالم ڈائریکٹر (لینڈ اینڈ ری ہیبلیٹیشن) عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سی ڈی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ باؤنڈری وال کی تعمیر کے لیے اتھارٹی سے کوئی اجازت یا حکم نہیں لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر تعمیرات پر پابندی عائد کردی
سماعت کے دوران سی ڈی اے حکام، دیوار ڈیفنس کمپلیکس کے لیے مختص جگہ پر ہونے کے حوالے سے متذبذب تھے۔
عدالتی استفسار کے جواب میں سی ڈی اے حکام نے تصدیق کی کہ ڈیفنس کمپلیکس کے لیے مخصوص علاقے میں تعمیرات شروع کرنے کے لیے ابھی تک کوئی بلڈنگ پلان منظور نہیں کیا گیا۔
گزشتہ ہفتے عدالت نے چار دیواری کی تعمیر روکنے کا حکم دیا تھا۔
وزارت دفاع کی جانب سے ڈائریکٹر (قانون) لیفٹیننٹ کرنل کفیل عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر دیوار کی تعمیر روک دی گئی ہے تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ محفوظ علاقے میں تعمیرات کے آغاز کیسے کیا گیا۔
عدالت نے وزارت دفاع کے سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی طور پر پیش ہوں اور وضاحت دیں کہ تعمیرات کس قانون کے تحت شروع کی گئی اور ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع کو بھی ہدایت کی کہ ’تحقیقات کی جائیں کہ کس نے دارالحکومت اسلام آباد میں نافذ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیوار کی تعمیر کا حکم دیا اور دیگر سرگرمیاں انجام دیں‘۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈیفنس کمپلیکس کے اطراف میں دیوار کی تعمیر سے روک دیا
سی ڈی اے کے چیئرمین اور سیکریٹری داخلہ کو بھی عدالت میں حاضر ہو کر مطمئن کرنے کی ہدایت کی گئی کہ ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم کیوں نہیں دیا جاسکتا جو اپنی آئینی ذمہ داریوں میں مسلسل ناکام ہیں۔
عدالت نے انہیں حکم دیا تھا کہ نافذ قوانین اور عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ’دارالحکومت اسلام آباد کے ایک ہزار 400 مربع میل میں قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی اور اشرافیہ کے قبضے کے پھیلاؤ سے متعلق عدالتی فیصلوں پر مستقل طور پر غور کیا گیا ہے‘۔
عدالتی حکم کے مطابق ’آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں نافذ قوانین کا انتخابی نفاذ ناقابل برداشت ہے، عدالت میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عوامی عہدیداران قانون کو عام شہریوں کی حد تک نافذ کرتے ہیں جبکہ مراعات یافتہ اور طاقتور افراد کو قانون سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے‘۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا مونال ریسٹورنٹ کی توسیع کا عمل روکنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ ’کچھ طبقات کو حاصل استثنیٰ ریاست اور اس کے عہدیداران کے ذریعے قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی بدترین شکل ہے، یہ رجحان بغاوت ہے کیونکہ آئین و قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہیں، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی پر جوابدہ ہونے سے مستثنیٰ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے‘۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع، چیئرمین سی ڈی اے اور سیکریٹری داخلہ کو 11 جنوری 2022 سے قبل حلف نامے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔