حکومت نے اومیکرون کے پیشِ نظر معاشی بحران کا خدشہ ظاہر کردیا
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پیشِ نظر معیشت پر منفی اثرات پڑنے کے خدشات کا اظہار کیا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے معاشی ایڈوائز ونگ (ای اے ڈبلیو) نے اپنی معاشی اپڈیٹ اور آؤٹ لُک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اومیکرون نے معیشت دانوں کو دنیا بھر کے ممکنہ معاشی خدشات پر ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور اس صورت حال میں پاکستانی معیشت کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ای اے ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجہ بین الاقوامی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، ایکسچیج ریٹ، موسمی وجوہات اور معشیت سے متعلق معاشی ایجنٹس کی وہ پیشگوئیاں ہیں جو مستقبل میں ایسے اشارے دیتی ہیں۔
حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ ہر سال بجلی، ایندھن، گھر کے کرائے، ٹرانسپورٹ اور کھانے کی چیزوں کی بڑھتی قیمتیں ہیں جس میں بڑے کنٹریبیوٹر بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دسمبر میں مہنگائی کی شرح میں ماہانہ کمی کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے، عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے، زرمبادلہ کی قیمت میں کمی کا رجحان برقرار رہا تاہم حکومت کی بین الاقوامی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے خلاف کوشش جاری ہیں۔
اگرچہ ان کوششوں کے نتیجے میں دسمبر میں متوقع مہنگائی کی شرح کو بڑھنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے تاہم پیش گوئیوں کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ ہر سال مہنگائی میں اضافہ ہوگا لیکن اس کی شرح پچھلے ماہ کی نسبت کم ہوسکتی ہے۔
نومبر کے مہینے میں دنیا بھر میں بجلی قیمت 6.4 فیصد بڑھی اور اس کے علاوہ دیگر اشیا کی قیمتوں میں 0.2 فیصد کمی دیکھی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جی ڈی پی کا سالانہ مالی خسارہ 1.7 سے گر کر 1.1 فیصد ہوگیا ہے، اسی طرح اگر جولائی تا اکتوبر کا گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو پرائمری بیلنس 156 بلین سے بڑھ کر 206 بلین ہوگیا ہے۔