مغربی ممالک نے جارحانہ رویہ جاری رکھا تو ہمیں بھی اقدامات کرنے ہوں گے، روسی صدر
روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ اگر مغربی ممالک یوکرین میں نیٹو کی توسیع کو روکنے کے لیے سیکیورٹی کی ضمانتوں کے حوالے سے اپنا دباؤ قائم نہ رکھ سکے تو پھر وہ دیگر اختیارات استعمال کرنے پر غور کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس مہینے کی شروعات میں ماسکو نے ایک سیکیورٹی مسودہ جمع کروایا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ نیٹو یوکرین اور دیگر سابق سوویت یونین کے ممالک کو رکنیت دینے سے انکار کرے اور وسطیٰ اور مشرقی یورپ سے اپنے فوجی اڈے ختم کرے۔
روسی صدر نے مغرب کو خبردار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مطالبات کو پورا کرنے کے لیے جلد از جلد آگے بڑھے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر مغربی ممالک نے ہمارے گھر کی دہلیز پر اپنا جارحانہ رویہ جاری رکھا تو پھر ماسکو کو بھی مناسب فوجی تکنیکی اقدامات کرنے ہوں گے۔
جب روسی صدر سے پوچھا گیا کہ ماسکو کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے تو انہوں نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ (ردعمل) متوقع ہو سکتا ہے، انہوں نے اس پر مزید ضاحت دیے بغیر کہا کہ یہ بات اس کے فوجی ماہرین کی جانب سے پیش کیے گئے مسودے میں شامل ہوگی۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ نیٹو کے اصولوں کے مطابق رکنیت کسی بھی اہل ملک کے لیے کھلی ہے، روس کو یوکرین پر اس قسم کی ضمانت دینے سے انکار کیا تھا جو روسی صدر پیوٹن چاہتے تھے، تاہم روس کے ساتھ اپنے تحفظات پر بات کرنے کے لیے اگلے ماہ سیکیورٹی مذاکرات ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے، جی۔سیون کا انتباہ
روسی صدر نے کہا کہ مذاکرات جنیوا میں ہوں گے جبکہ روس اور نیٹو کے درمیان بھی مذاکرات ہونے والے ہیں اور یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے زیر اہتمام وسیع تر بات چیت متوقع ہے۔
اتوار کو نشر ہونے والے بیان میں روسی صدر نے کہا کہ روس نے مغرب سے تعمیری جواب کی امید میں مطالبات پیش کیے ہیں۔
ولادمیر پوٹن نے اس بات کی تصدیق کی کہ یوکرین کے لیے نیٹو کی رکنیت یا وہاں اتحادی ممالک کے فوجی ہتھیاروں کی تعنیاتی روس کے لیے ایک سرخ لکیر ہے جسے وہ مغرب کو عبور کرنے کے ہرگز اجازت نہیں دے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز موجود نہیں، نیٹو یوکرین میں ایسے میزائل تعینات کر سکتا ہے جنہیں ماسکو تک پہنچنے میں چار یا پانچ منٹ لگیں گے۔
ولادمیر پیوٹن نے کہا کہ انہوں نے ہمیں ایک ایسی لکیر پر دھکیل دیا ہے جسے ہم عبور نہیں کر سکتے، مغربی ممالک ہمیں اس لکیر پر لے گئے ہیں جہاں ہمیں ان کو یہ بتانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ رک جاؤ!
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ امریکا اور اس کے اتحادی سلامتی کے مذاکرات کو ختم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور انہیں روس کے قریب فوجی سامان کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ روس نے اپنے سیکیورٹی مطالبات اس لیے شائع کیے ہیں تاکہ ان سے عوام آگاہ ہوسکیں اور امریکا اور اس کے اتحادیوں پر سیکیورٹی ڈیل کے حوالے سے دباؤ بڑھایا جاسکے۔
مزید پڑھیں: امریکا اور روس، یوکرین کے معاملے پر سخت تنازع سے بچنے کے لیے پرعزم
روسی صدر نے مزید کہا کہ ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ہم ایسے معاہدوں تک پہنچیں جو روس اور اس کے شہریوں کی سلامتی کو طویل مدتی تناظر میں یقینی بنائے۔
کریملن نے حالیہ ہفتوں میں یوکرین کے قریب روسی فوجیوں کی تعیناتی کے نتیجے میں ہونے والی کشیدگی کے درمیان اپنا سیکیورٹی مطالبہ پیش کیا تھا جس نے ممکنہ حملے کے مغربی خدشات کو ہوا دی ہے۔
یاد رہے کہ رواں مہینے امریکی صدر جوبائیڈن نے روسی صدر پیوٹن کو ویڈیو کال کے ذریعے خبردار کیا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے متعدد نتائج کا سامنا کرنا ہوگا جبکہ روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کی تردید کی ہے اور اس کے بدلے میں یوکرین پر الزام لگایا ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے ماسکو کے حمایت یافتہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ یوکرین نے روس کے اس دعوے کو مسترد کیا تھا۔
واضح رہے کہ سال 2014 میں روس نے یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے فوراً بعد ملک کے مشرق میں علیحدگی پسند بغاوت کے پیچھے اپنی حمایت پیش کی تھی، 7 سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی اس لڑائی کے دوران 14 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک ہوئے جبکہ یوکرین کا صنعتی مرکز تباہ ہوگیا جسے ڈونباس کہا جاتا ہے۔