• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

نواز شریف کے بغض میں ’آپ‘ نے ریاست کی بنیادیں ہلادیں، سعدرفیق

شائع December 25, 2021
سعد رفیق نے کہا کہ 2013 کے انتخابات کے پی میں بھی ہماری حکومت بن رہی تھی— فوٹو: ڈان نیوز
سعد رفیق نے کہا کہ 2013 کے انتخابات کے پی میں بھی ہماری حکومت بن رہی تھی— فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ملک جتھوں کے ہاتھ میں ہے، سیاستدان آپس میں لڑ رہے ہیں اور ریاستی ادارے چاہتے ہیں کہ ساری طاقت ان کے پاس ہو۔

لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ جس ملک کی حکومت قرض پر چل رہی، جہاں مذہبی منافرت بڑھ رہی ہوں وہاں سیالکوٹ جیسے واقعات ہی پیش آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ نے ساری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے، ہم سری لنکا کے مقروض انہوں نے صحت و کھیل کے شعبے میں ہماری مدد کی اور ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کے پاکستان میں جتھوں کی سرپرستی کی گئی ہے، مجھ جیسے لوگ یہ سوچتے ہیں کیاکرنا ہے، الیکشن لڑ کر انتخابات جیت کر آپ ایک مرے ہوئے ادارے کو فعال کرتے ہیں اور ایک جتھا آکر آپ کی ساری محنت کو ضائع کردے گا اور آپ کو جیل بھیج دے گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ ریاست چلانے کے طریقے ہیں، کیا یہ جوہری طاقت کو چلانے کا طریقہ ہے، دنیا آپ کے جوہری پروگرام پر بری نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور طاقتور ہمسایوں کے درمیان بیٹھے آپ آپس میں لڑ رہے ہیں، دست و گریبان ہورہے ہیں، طاقت کا استعمال ختم نہیں ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعد رفیق نے کہا کہ 2013 کے انتخابات کے پی میں بھی ہماری حکومت بن رہی تھی

سابق وزیر کا کہنا تھا کہ طاقت کے حاصل کرنے کا ایک گھناؤنا کھیل ختم ہی نہیں ہوتا، سیاسی حریف ہیں تو وہ ایک دوسرے کو پچھاڑنے لگے ہیں، ریاستی ادارے چاہتے ہیں کہ ساری طاقت ان کے ہاتھوں میں آجائے، اور ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کیونکہ ہم اپنی جانوں پر کھیل کر عدلیہ کی آزادی کے لیے ماڈل ٹاؤن سے نکلے تھے، پی ایم ایل این اگر حصہ نہ ڈالتی تو کیسے وکلا کی تحریک کامیاب ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے اس دن کے لیے تحریک چلائی تھی کہ نظریہ ضرورت دفن نہ ہو، پاناما کا کیس آئے اور نواز شریف کو سزا سنادی جائے اور باقی سارے وہی رہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے، جب آپ انصاف نہیں کرتے تو ملک کو نقصان پہنچاتےہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میرا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے لیکن اب میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ قومی اسمبلی کےانتخابات کیوں لڑے جائیں اگر ہم پسند نہیں آتے تو ہمیں چور ثابت کردیا جاتا ہے پھر کوئی مقبول باقر جیسا سپریم کورٹ کا جج آتا ہے وہ قانون کی کتاب پڑھ کر کال کوٹھری سے نکال دیتا ہے، ورنہ آپ جیل میں پڑے رہتے ہیں۔

انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت ان پر لگنی چاہیے تھی جنہوں نے جج کے عہدے کی خلاف ورزی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے ریاست کے ساتھ کیا کیا ہے، نوازشریف کے بغض میں آپ نے ریاست کی بنیادیں ہلادیں، 2013 میں ہم حکومت میں آئے 2014 میں ہمیں واپس بھیجنے کا بندوبست کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کا مقصد ایک حکومت کو گراکر اپنی حکومت بنانا نہیں، سعد رفیق

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف 3 بار وزیر اعظم بنے اور تینوں بار انہیں اپنی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی، جب جوہری طاقت ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں نے ہمیں جیلوں ڈال دیا تھا۔

جب دوسری بار نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اور شہباز شریف نے دن رات ایک کر کے کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی احتجاج کررہی تھی میں ان لوگوں میں شامل تھا جو لڑائی چاہتے تھے لیکن میاں صاحب نے لانگ مارچ کا منع کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان کے بعد اہم قرار داد ہے، ایسے تمام تر سیاسی جماعتوں تک توسیع دینی چاہیے تھی۔

سعد رفیق نے کہا کہ 2013 کے انتخابات کے پی میں بھی ہماری حکومت بن رہی تھی، عمران خان کی سادہ اکثریت نہیں تھی، ہم مل کر حکومت بنا سکتے تھے، حکومت بنانے کے لیے لوگوں نے ان سے رابطہ بھی کیا لیکن میاں صاحب نے انکار کردیا اور کہا کہ کے پی عمران خان نشستیں زیادہ ہیں حکومت کا حق بھی عمران خان کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں اپنے ملک کو متحد رکھنا ہے تو مارا ماری اپنے من پسند افسر کو ڈی جی نیب بنانے جیسے معاملات کو چھوڑ دیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرسیاسی جماعتیں ختم ہوگئیں تو سیاسی کلچر کا خطرہ لاحق ہوگا، پیپلز پارٹی کو بھی دوبارہ پنجاب میں آنا چاہیے لیکن آپ کو اس کے لیے کام کرنا ہوگا، کارکردگی کی بنیاد پر ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024