’افغانستان میں موجود داعش۔خراسان پاکستانیوں اور افغانوں دونوں پر حملے کررہی ہے’
افغانستان میں موجود داعش خراسان نامی گروپ افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کرتا ہے، جو بنیادی طور پر تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان اور اسلامک موومنٹ ازبکستان کے سابق اراکین پر مشتمل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات دہشت گردی سے متعلق رواں ہفتے جاری کردہ ایک امریکی رپورٹ میں کہی گئی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا کہ افغانستان سے کارروائیاں کرنے والے داعش خراسان میں اب بھی تقریباً ایک ہزار جنگجو شامل ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کونسل کے حالیہ اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ داعش خراسان، پاکستان میں حملے کرنے کے لیے اپنے افغان سیل کو استعمال کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے بیان میں افغانستان کی 'توہین' نظر نہیں آتی، افغان وزیرخارجہ
جس پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ردِعمل دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ گروپ، افغانستان میں حملوں کے لیے پاکستانی سرزمین کو استعمال کر رہا ہے۔
تاہم امریکی رپورٹ میں پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے کہ داعش خراسان، افغانستان میں موجود ہے البتہ اس نے پاکستان کے قبائلی اضلاع سے جنگجو بھرتی کر رکھے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق داعش خراسان کو کچھ فنڈنگ اپنی بنیادی تنظیم ’داعش‘ سے حاصل ہوتی ہے جبکہ بقیہ غیر قانونی تجارت اور بھتہ خوری سے اکٹھی کی جاتی ہیں۔
داعش خراسان کی قیادت نے داعش کے مارے گئے رہنما ابوبکر البغدادی کی بیعت کی جو 2015 میں قبول کی گئی تھی۔
داعش کے دونوں ممالک میں حملے
امریکی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ گروپ نے افغان فورسز اور عوام کے خلاف خودکش بم دھماکے، چھوٹے مسلح حملے اور اغوا کی کارروائیاں کیں۔
مزید پڑھیں: پشاور: پولیس مقابلے میں داعش کمانڈر سمیت 3 دہشت گرد ہلاک
اس کے علاوہ گروپ نے پاکستان کے اندر حکومتی عہدیداروں اور شہریوں پر کیے گئے حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی۔
امریکی رپورٹ میں داعش خراسان کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گروپ دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان میں فرق نہیں کرتا اور دونوں ممالک میں باقاعدگی سے شہریوں، مسلح افواج کے اراکین حتیٰ کے اسکولوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
سال 2016 میں داعش خراسان سے افغانستان میں پاکستانی قونصل خانے پر حملہ کیا تھا جس میں افغان سیکیورٹی فورس کے 7 اہلکار ہلاک ہوئے، کابل میں ایک پرامن مظاہرے میں بم دھماکا کیا جس میں 80 لوگ جان سے گئے، کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں فائرنگ اور خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 94 افراد جاں بحق ہوئے اور بلوچستان میں ایک مزار پر کیے گئے حملے میں 50 افراد مارے گئے۔
سال 2017 میں اس عسکری تنظیم نے کابل میں عراقی سفارتخانے پر حملہ کر کے 2 افراد قتل کیے، مغربی افغانستان کی ایک مسجد میں بم دھماکے سے 29 افراد ہلاک ہوئے، کابل کے مضافات میں ایک شیعہ آبادی میں دو خودکش دھماکوں سے 20 افراد جان سے گئے، سندھ میں ایک صوفی مزار پر حملے میں 88 افراد اور بلوچستان میں ایک انتخابی ریلی میں حملے سے 149 افراد لقمہ اجل بنے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان، 'داعش کے سنگین خطرے' پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکیں گے؟
سال 2019 میں داعش خراسان نے کابل میں وزارت مواصلات پر ایک حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 7 لوگ مارے گئے، جبکہ اسی سال کابل میں ایک شادی ہال میں کیے گئے خودکش بم دھماکے میں 80 افراد جان سے گئے۔
اسی سال کے اختتام پر ننگرہار کی ایک مسجد میں داعش خراسان کے حملے سے 70 افراد جاں بحق ہوئے۔
سال 2019 میں داعش کے اس دھڑے کو متعدد شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور طالبان فورسز اور داعش مخالف اتحادی کے حملوں سے یہ گروپ ننگرہار میں اپنے بڑی علاقے سے محروم ہوگیا تھا۔