کراچی کے علاقے شیرشاہ میں دھماکا، 15 افراد جاں بحق
کراچی کے علاقے شیر شاہ کے پراچا چوک پر نجی بینک کی عمارت میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی عالمگیرخان کے والد سمیت 15 افراد جاں بحق اور 16 افراد زائد زخمی ہوگئے۔
ایس ایچ او ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ دھماکا نالے کے اوپر تعمیر شدہ ایک نجی بینک میں ہوا اور بینک کو مذکورہ جگہ خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: گلشن اقبال میں مسکن چورنگی کے قریب دھماکا، 5 افراد جاں بحق
ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ عمارت کے پلرز اکھڑ گئے اور بینک کی عمارت تقریباً مکمل تباہ ہوگئی، زوردار دھماکے سے قریبی واقع پیٹرول پمپ کے علاوہ متعدد گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کو بھی نقصان پہنچا۔
بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر صابر میمن نے بتایا کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی نے دھما کے نتیجے میں 15 افراد کےجاں بحق اور 16 زخمیوں کی تصدیق کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے 8 افراد کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے گھر بھیج دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ملبہ گرنے کی وجہ سے اکثر افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے، کسی سےبھی دھماکا خیز مواد یا کیمیکل کی بو نہیں آئی۔
سول ہسپتال کے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر قرار احمد کےمطابق دھماکے کے بعد 13 افراد کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا اور مزید 2 افراد ہسپتال میں علاج کے دوران دم توڑ گئے۔
قبل ازیں ترجمان کراچی پولیس نے کہا تھا کہ نالے پر قائم نجی بینک میں دھماکا گیس لیکیج سے ہوا، بم ڈسپوزل اسکواڈ کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دھماکا گیس بھر جانے کے باعث ہوا۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ واقعے میں دہشت گردی سمیت کسی قسم کی تخریب کاری کے شواہد ابھی تک نہیں ملے ہیں۔
جس کے بعد ڈی آئی جی جنوبی کراچی شرجیل کریم کھرل نے بتایا تھا کہ شیرشاہ دھماکے میں اب تک 15 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم بنادی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایس پی انوسٹی گیشن کیماڑی کریں گے اور ٹیم ہرپہلو سے دھماکے کی تحقیقات اور جائزہ لے گی، سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بم ڈسپوزل رپورٹ اور ابتدائی تحقیقات سے دھماکا گیس لیکج کا ہی لگتا ہے۔
ڈی آئی جی جنوبی کا کہنا تھا کہ دھماکے کا مقدمہ بھی درج کیا جارہا ہے، ذمہ داروں کے تعین کے لیے تحقیقاتی ٹیم دیگر اداروں کی خدمات بھی لے گی اور نالے میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے پاک بحریہ کی خدمات حاصل کریں گے اور بحریہ کے غوطہ خور نالے میں سرچنگ کریں گے۔
اس سے قبل سیکریٹری داخلہ سندھ قاضی شاہد پرویز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دھماکے میں 14افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نالے کے اوپر بنائی تمام مارکیٹس اور عمارتیں غیر قانونی ہیں، واقعے سے متعلق شفاف انکوائری کے احکامات دیے ہیں اور تجاوزات کے خلاف جلد گرینڈ آپریشن کیا جائے گا۔
سیکریٹری داخلہ سندھ قاضی شاہد پرویز نے کہا کہ نالے پر بنائے گئے لیز پیپر قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے اپنی ٹوئٹ میں کراچی سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان کے والد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے واقعے پر اظہار افسوس کیا۔
قبل ازیں ڈاکٹر رُتھ فاؤ سول ہسپتال برنس سینٹر کے میڈیکل سرجن (ایم ایس) ڈاکٹر صابر میمن نے بتایا تھا کہ ہسپتال میں 8 افراد کی لاشیں لائی گئی ہیں۔
علاقے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ظفر علی شاہ نے بتایا کہ بینک کی عمارت نالے پر تعمیر تھی جنہیں کچھ عرصے قبل نوٹس دیا گیا تھا کہ نالے کی صفائی کے لیے بینک کو خالی کردیں۔
مزید پڑھیں: کراچی کے علاقے ناظم آباد میں دھماکا، 4 افراد جاں بحق
دھماکے کے فوری بعد علاقہ مکین اور ریسکیو ٹیمز جائے وقوع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے لیے قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ترجمان رینجرز کے مطابق جوانوں نے موقع پر پہنچ کر علاقے کا گھیراؤ کرلیا ہے اور وہ امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔
نالوں پر عمارت تعمیر کرنا غیرقانونی ہے، سعید غنی
صوبائی وزیراطلاعات سعید غنی نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک موصول اطلاعات کے مطابق سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کی جانب سے بینک کی عمارت تعمیر کرکے کرایے پر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں سمجھنے سےقاصر ہوں کہ ایک ادارہ نالے کے اوپر کیسے عمارت تعمیر کرسکتا ہے اور اس کو کرایے پر دے سکتا ہے’۔
سعید غنی نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘سائٹ ایسوسی ایشن بظاہر، اور اس کو میں حتمی طور پر نہیں کہہ رہا، حادثے کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس نے نالے کے اوپر متاثرہ عمارت تعمیر کی اور کرایے پر دے دیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر نالے پر کسی قسم کی تعمیرات قانونی نہیں ہیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ شہر میں نالوں کے اوپر تعمیر کی گئیں تمام عمارتوں کو گرا دینا چاہیے اور اس کے نتیجے میں متاثر ہونے والے افراد کو اس کا معاوضہ دینا چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ‘اس جگہ کو الاٹ کرنے والے بنیادی قصور وار نہیں ہیں’ تاہم ادارے، محکمے، حکام اور عہدیدار جنہوں نے نالے کے اوپر زمین الاٹ کی ان کی نشان دہی ہونی چاہیے تاکہ ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔
بعد ازاں محکمہ داخلہ سندھ نے کہا کہ نالے کے اوپر تعمیر کی گئی عمارت غیرقانونی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعےکی شفاف تحقیقات کے لیے احکامات جاری کردیے گئے ہیں اور تجاوزات کے خلاف جلد ہی گرینڈ آپریشن شروع کردیا جائے گا۔
وزیر اعظم کا اظہار تعزیت، گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ کا واقعے کا نوٹس
وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر بیان میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کی۔
انہوں نے کہا کہ رکن قومی اسمبلی جہانگیر خان کے والد کے جاں بحق ہونے پر بہت دکھ ہے۔
گورنر سندھ عمران اسمٰعیل اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
مراد علی شاہ نے دھماکے میں جانی نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری صحت کو ہدایات جاری کی ہیں کہ زخمیوں کو ہر ممکن فوری طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کمشنر کراچی کو واقعے کی تفصیلی انکوائری کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت دی کہ تفتیش میں پولیس کا ایک افسر بھی شامل کیا جائے تاکہ ہر پہلو سے چھان بین ہوسکے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں کراچی کے علاقے گلشن میں ایک عمارت میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ عمارت کا ایک حصہ تباہ ہوگیا تھا۔