ویسٹ انڈیز کے خلاف میچوں میں کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم خالی کیوں رہا؟
ویسٹ انڈیز کا حالیہ دورہ پاکستان اب تک کئی حوالوں سے قومی ٹیم کے لیے خوش آئند ثابت ہوا ہے۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں کی واپسی کے بعد یہ خدشات پیدا ہوگئے تھے کہ کیا ایک بار پھر ہمارے میدان ویران ہوجائیں گے؟ لیکن شکر ہے کہ ویسٹ انڈیز کی آمد کے بعد اس سوال کا جواب نفی میں مل گیا۔
دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ قومی ٹیم نے ایک سال میں سب سے زیادہ 19 ٹی20 مقابلے جیتنے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے اور امید یہی ہے کہ وہ تیسرا میچ جیت کر ان نمبرز کو 20 تک لے جائے گی۔ اس سے پہلے بھی یہ اعزاز 17 میچوں کے ساتھ قومی ٹیم کے پاس ہی تھا۔
لیکن جہاں اتنا سب کچھ اچھا ہورہا ہے، وہیں کچھ سوال بھی اٹھ رہے ہیں، اور ان میں اہم ترین سوال خالی میدان سے متعلق ہے۔
اس حوالے سے زیادہ بات سابق کپتان قومی کرکٹ ٹیم وسیم اکرم کی ٹوئٹ کے بعد ہونا شروع ہوئی جس میں انہوں نے نہ صرف خالی میدانوں پر افسوس کا اظہار کیا بلکہ لوگوں سے یہ سوال بھی پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔
تو سوچا جب اتنے بڑے کھلاڑی نے ہم سے سوال پوچھ ہی لیا ہے تو کیوں نہ اس حوالے سے کچھ تفصیلی جواب آپ سب کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن اس جواب سے پہلے کچھ ذاتی تجربات شیئر کرنا چاہوں گا۔
کرکٹ دیکھنے کا جنون تو ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک ایک جیسا رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آسٹریلیا میں کوئی سیریز کھیلی جارہی ہوتی تو میچ دیکھنے کے لیے رات کبھی 3 بجے اور کبھی 4 بجے اٹھ جاتا اور پھر اسکول کے وقت تیار ہوکر روانہ ہوجاتا۔
آسٹریلیا، انگلینڈ یا نیوزی لینڈ میں کھیلی جانے والی سیریز 2 حوالوں سے ہمیشہ ہی متاثر کن رہی ہیں، ایک تو وہاں کے خوبصورت میدان اور دوسرا تماشائیوں سے بھرپور ماحول۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی ہم نے ان ممالک میں بالکل خالی میدانوں پر میچ دیکھے ہوں۔ اس کی وجہ مختلف لوگوں نے مختلف بتائیں، لیکن جو سب سے درست وجہ معلوم ہوئی وہ ان ممالک میں خوشحالی سے متعلق وجہ تھی۔
میں اس کی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ میلبورن شہر کی کُل آبادی 50 لاکھ کے آس پاس ہے، اور وہاں موجود اسٹیڈیم میں ایک لاکھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اب آپ یوٹیوب پر جائیے اور ٹی20 اور ایک روزہ میچوں کی جھلکیاں نہیں بلکہ وہاں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کی جھلکیاں دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں ٹیسٹ میچوں میں بھی کتنی بڑی تعداد میں تماشائی میدان کا رخ کرتے ہیں۔
خوشحالی سے متعلق بات کی ہماری بہن نے بھی تصدیق کی جو آسٹریلوی شہر پرتھ میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ وہاں جس طرح کی پُرسکون اور خوشحال زندگی سے متعلق نقشہ کھینچتی ہیں، اس کا تو ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔
لیکن خوشحالی کے علاوہ بھی چند ایسے پہلو ہیں جو پاکستان میں لوگوں کو میدانوں کا رخ کرنے سے روکتے ہیں۔
بڑھتی مہنگائی اور تنگدستی
بڑھتی مہنگائی اور تنگدستی ایک ایسی رکاوٹ ہے جو انسان کو پیٹ بھرنے کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتی۔ پاکستان میں ایک عام مزدور 12 گھنٹے کی ڈیوٹی کرتا ہے، اور اگر آپ خوش نصیب ہیں اور وائٹ کالر نوکری کرتے ہیں تو ڈیوٹی 8 گھنٹے تک محدود ہوسکتی ہے لیکن شہروں بالخصوص کراچی میں ٹریفک کا عذاب ان 8 گھنٹے والوں کو بھی 10 سے 11 گھنٹے گھر سے باہر گزارنے پر مجبور کردیتا ہے۔
جب آپ صبح سے شام تک مسلسل مشقت بھرا دن گزاریں تو پھر کچھ اور سوچنے کی ہمت کم ہی بچتی ہے۔
میچ دیکھنا تفریح نہیں، جرم بن چکا ہے
اس حوالے سے میں ایک تفصیلی تحریر لکھ چکا ہوں۔ مجھے پاکستان کے دیگر شہروں کا تو معلوم نہیں لیکن کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم تفریح کی غرض سے آنے والے تمام لوگوں کے لیے جیل بن چکا ہے۔
یہ بات کسی بھی طور پر جذبات میں نہیں کہی جارہی بلکہ بار بار ہونے والے تجربات کی روشنی میں کی جارہی ہے۔ ایک عام آدمی کیا سوچ کر میدان جانا چاہے گا؟ وہاں کچھ اچھا وقت گزار لے، کچھ اچھا کھا پی لے، بیٹھنے کی اچھی جگہ مل جائے، لیکن جب وہاں آپ کو گھنٹوں لائنوں میں لگا دیا جائے، جب عزت نفس مجروح کردی جائے، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے آپ کا استقبال کیا جائے تو کون میدان آنا چاہے گا۔
مندرجہ بالہ ٹوئٹس میں جو آپ نے دیکھا یہ محض ایک آدھ مثال ہے، میں نے تو ذاتی طور پر ڈنڈے کھائے ہیں، گھنٹوں لائنوں میں لگا ہوں، اندر جانے سے پہلے اس طرح جامہ تلاشی لی گئی ہے جیسے میں دفعہ 420 کا مجرم ہوں، اس لیے یہ وہ پہلو ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔
بے ہودہ شیڈول
پاکستان میں مصروف شہری زندگی کا ذکر اوپر ہوچکا ہے، اور یہ مصروفیت کوئی خفیہ بات نہیں ہے بلکہ ہر کوئی یہاں گزاری جانے والی زندگی سے واقف ہے لیکن شاید پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے منتظمین اس حوالے سے لاعلم ہیں۔
میں حیران ہوں کہ کون لوگ ہیں جنہوں نے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو چھوڑ کر پیر اور منگل کو 2 دن لگاتار میچ منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہفتے کے آغاز میں ہر دفتر میں معمول سے زیادہ کام ہوتا ہے، ایسی صورت میں بھلا لوگ کس طرح میدان کا رخ کرسکتے ہیں؟
اگر یہی میچ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو منعقد کروائے جاتے تو یقینی طور پر چھٹی کا فائدہ ہمیں بھرے ہوئے میدان کی صورت میں نظر آتا۔
واضح رہے کہ 3 ایک روزہ سیریز کے 2 میچ بھی پیر اور بدھ کو ہی کھیلے جائیں گے، یعنی جب لوگ ٹی20 میچوں کے لیے وقت نہیں نکال سکے تو خود سوچ لیجیے کہ ایک روزہ میچ میں اسٹیڈیم کی صورتحال کیا ہوگی۔
فری ٹکٹس کا اطلاق کیوں ضروری ہے
ہم نے تقریباً 10 سال اپنے میدانوں کو ویران دیکھا ہے، اور اس پورے عرصے میں ہم دنیا کو اس دلیل کے ساتھ پاکستان میں کھیلنے کے لیے قائل کیا کرتے تھے کہ یہاں لوگوں میں کھیل کا جنون حد سے زیادہ ہے، یہاں لوگ میدان میں آکر اپنے ستاروں کو اپنے سامنے کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن جب طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ سری لنکن ٹیم نے راولپنڈی نے پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا تو بدقسمتی سے وہ بھی خالی میدان پر کھیلا گیا تھا۔
اس لیے پی سی بی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کچھ ایسے آئیڈیاز تلاش کرے جس کی مدد سے لوگوں کو اسٹیڈیم کی جانب لانے میں آسانی ہو۔ اس میں ایک بڑا کام تو ٹکٹس کو مکمل طور پر فری کردینا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس سے آمدنی کے حوالے سے نقصان ہوسکتا ہے، لیکن اگر اس نقصان کے نتیجے میں ہمارے میدان لوگوں سے بھر جائیں تو کم از کم دنیا کے سامنے ہمارا امیج بہتر ہوسکتا ہے اور ہم اپنی کہی ہوئی بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ یہاں لوگوں میں کھیل کا جنون حد سے زیادہ ہے۔
حتمی بات
ہم نے اوپر میلبورن کی مثال دی تھی، جہاں 50 لاکھ کی آبادی والے شہر میں کئی مرتبہ ایک لاکھ کی گنجائش والا اسٹیڈیم فل ہوتا رہا ہے، لیکن اگر کراچی کو دیکھا جائے تو صورتحال یکسر مختلف ہے، جہاں لگ بھگ 3 کروڑ نفوس پر مشتمل شہر کا 33 ہزار کی گنجائش والا اسٹیڈیم بھی کبھی کبھار ہی تماشائیوں سے بھرتا ہے، جس کی ظاہر ہے کوئی ایک وجہ ہرگز نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ وسیم اکرم کو ان کے سوال کا تسلی بخش جواب مل گیا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ مستقبل میں ہونے والی سیریز سے متعلق اپنے انتظامات کو بہتر کرے گا، لوگوں کے لیے سہولیات میں اضافہ کرے گا اور سیکیورٹی کے نام پر ان کو رسوا ہرگز نہیں ہونے دے گا۔
تبصرے (4) بند ہیں