گرین بس کا افتتاح سندھ کی جماعتوں نے کیوں نہیں کیا؟
یہ ایک ایسا ہفتہ تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بھلا کر ’کام کو عزت‘ دینے کی بات کررہی تھی۔ ظاہر ہے کہ ووٹ میں دلچسپی رکھنے والے خاندان کے آدھے افراد تو ذاتی مصروفیات میں پھنسے ہوئے تھے۔ شاید اسی وجہ سے پارٹی نے سوچا کہ اب کام کو بھی کچھ اہمیت دے دی جائے۔
اس کام کے لیے انہوں نے جس ’کام‘ کو چُنا وہ کوئی اور نہیں بلکہ کراچی کا گرین لائن بس سروس منصوبہ تھا جس کا وزیرِاعظم نے گزشتہ ہفتے افتتاح کیا ہے۔
لیکن وزیرِاعظم کی جانب سے منصوبے کا افتتاح کرنے اور فوٹو شوٹ کروانے سے ایک دن قبل مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کراچی پہنچ کر منصوبے کا علامتی افتتاح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر رینجرز کے ساتھ ہونے والی دھکم پیل سے احسن اقبال زخمی ہوگئے۔
اگلے دو چار دن تک ٹی وی پروگرامات میں اس حوالے بات ہوتی رہی کہ کس جماعت نے اس منصوبے پر کتنا کام کیا ہے اور کس جماعت کو اس منصوبے کا حقیقی کریڈٹ جاتا ہے۔ بہرحال یہ سوال ہم اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کے بجائے کراچی کے شہریوں کے لیے زیادہ اہم ہے۔ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے دیکھنے کے بجائے کسی جدید شہری منصوبے پر بحث کرتے ہوئے دیکھنا واقعی خوشگوار تھا۔
مزید پڑھیے: کراچی بطور اے ٹی ایم
یہ احساس ضرور ناخوشگوار تھا کہ جو دو جماعتیں کراچی کے اس منصوبے پر لڑ رہی تھیں وہ دراصل مقامی اسٹیک ہولڈر ہی نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کبھی بھی کراچی کی سیاست میں مضبوط جماعت نہیں رہی ہے اور تحریکِ انصاف کی آمد بھی یہاں 2018ء کے انتخابات کے بعد ہوئی ہے۔ لیکن جو دو جماعتیں (ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی) سندھ کی سیاست پر غالب رہی ہیں انہوں نے خود کو اس بحث سے دُور رکھا۔ ان دونوں جماعتوں کی توجہ دیگر معاملات پر تھی۔ شاید ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں کئی عشروں کے بعد بننے والے کسی منصوبے پر ’باہر کی‘ جماعتیں کیوں کریڈٹ لے رہی ہیں۔
ہم ذرا کچھ دیر کے لیے اس موضوع کو ایک جانب کرکے مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ہنگامے نے مجھے یاد کروایا کہ مسلم لیگ (ن) تو وہ جماعت ہے جس نے خود کو اور اپنے ووٹرز کو ’کام‘ پر یقین رکھنے والا بتایا ہے۔ یہ ووٹ کو عزت دو والا نعرہ واقعی نیا ہے اور سیاسی تجزیہ کار بھی اس کی نشاندہی کرچکے ہیں۔
اگر آپ 2013ء کے عام انتخابات کی مہم کو دیکھیں تو اس میں اس گانے کے مرکزی بول تھے کہ ’تجھ سے اپنا یہ وعدہ ہے میرے وطن، تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم‘۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ ایک سال کے اندر اندر پنجاب جیسے صوبے میں جہاں لوڈ شیڈنگ سنگین صورت اختیار کرچکی تھی وہاں یہ گانا واقعی حقیقت میں بدلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے یہ طریقہ قابلِ فہم بھی لگتا ہے کیونکہ اسے ہمیشہ ہی سیاسی مقابلے کا سامنا رہا ہے۔ جب 1990ء میں اسے پہلی بار اقتدار میں لایا گیا تو اسے ایک ایسے پنجاب کا سامنا تھا جہاں پیپلز پارٹی ایک بڑی جماعت تھی اور اس کی تقریباً 40 فیصد ووٹوں پر گرفت تھی۔ یہاں مسلم لیگ کو اپنے لیے جگہ بنانی تھی اور اس کام کے لیے انہوں نے سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے ترقی کا سہارا لیا۔ تاہم 9 سال بعد فوجی بغاوت کی وجہ سے پنجاب میں اس کی حکومت ختم ہوگئی۔
مزید پڑھیے: کراچی گرین لائن بس منصوبے کی خصوصیات کیا ہیں؟
جب 2008ء میں مسلم لیگ (ن) کی واپسی ہوئی تو اب اسے پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ق) کا بھی سامنا تھا جو اس وقت پنجاب میں کسی حد تک مستحکم تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چوہدریوں نے بھی مسلم لیگ (ن) کی طرح ترقی پر توجہ دی تھی۔ 2008ء کے انتخابات میں ان تینوں جماعتوں کو کم و بیش برابر ہی ووٹ ملے تھے۔ یہاں مسلم لیگ (ن) کو مسلم لیگ (ق) سے زیادہ کام کرکے دکھانا تھا اور یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ وہ ان علاقوں کو ترقی دے سکتے ہیں جنہیں پیپلز پارٹی بھی ترقی نہیں دے کسی تھی۔
2013ء کے انتخابات کے وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی ایک قوت بن چکی تھی بلکہ تجزیہ کار تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی لیپ ٹاپ اسکیم اور لاہور میٹرو بس منصوبے کا فیصلہ بھی 2011ء میں مینارِ پاکستان پر پی ٹی آئی کے بڑے جلسے کے بعد ہوا تھا۔ شاید ہر وقت خطرات پر نظر رکھنے والی جماعت کے لیے کام واقعی بہت اہم تھا (شاید جماعت کو محسوس ہوا ہو کہ کام والا ووٹ اب محفوظ ہے اور یوں جماعت نے 2018ء میں ووٹ کو عزت دینے کی بات کی ہو)۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات میں ہونے والی مداخلت سیاسی دشمنی کا باعث بنی اور یوں ایک مقابلہ شروع ہوگیا کہ کون زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ (ق) کو بھی انہی اصولوں پر چلنا تھا جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تنازعے کے نتیجے میں تشکیل پائے۔ آج عثمان بزدار کو ایک ناکام وزیر اعلیٰ (اور ممکنہ طور پر آئندہ انتخاب میں پنجاب سے پی ٹی آئی کی شکست) کے طور پر دیکھا جارہا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ان کی شبیہہ شہباز شریف اور پرویز الہیٰ کی طرح ایک متحرک وزیر اعلیٰ والی نہیں ہے۔
تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اس وجہ سے بہتر کارکردگی نہیں دکھاتی کہ اسے اپنے ہوم گراؤنڈ یعنی سندھ میں کسی اور جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہے؟ اکثر افراد اس بارے میں متفق ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اس وجہ سے ہے کہ وہاں دیہی علاقوں میں کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے زیرِ اثر شہری علاقوں کو بہت زیادہ توجہ بھی نہیں دی اور یوں کراچی کو صوبائی حکومت کی جانب سے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ بس منصوبے کے حوالے سے کراچی دیگر شہروں سے پیچھے رہ گیا۔
مزید پڑھیے: زمین بوس ہوتا کراچی
اور اب جب اس منصوبے کا افتتاح بھی ہوا تو اس کی جزوی وجہ ایک ایسی جماعت ہے جس نے پہلے کراچی والوں کو امید دلوائی اور پھر انہیں مایوس کیا۔ یہاں بھی سیاسی مقابلے میں ہار جانے کا ہی خوف غالب تھا۔ (زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر اب سیاسی جماعتیں اس حوالے سے بحث کر رہی ہیں کہ کون کراچی میں بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کی فضا اب سیاسی مقابلے کے لیے سازگار ہے)۔
بلاشبہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری بحث کتنی ہی عجیب کیوں نہ لگے لیکن یہ 2008ء سے 2013ء کی مدت میں کچھ عرصے برقرار رہنے والے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اتحاد سے بہت بہتر ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اتحاد میں کوئی بھی دوسرے کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا تھا اور دونوں ہی جماعتیں اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حمایت برقرار رکھنے کے لیے کام کررہی تھیں۔ سخت الفاظ کا استعمال نہ کرنا یا خاموشی اختیار کرنا ہمیشہ ہی تہذیب کی علامت نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ رضامندی کا اشارہ بھی ہوتا ہے۔
یہ مضمون 14 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں