صحافی لاپتا کیس: ’کیوں نہ آرٹیکل6 لگا کر تمام متعلقہ چیف ایگزیکٹوز کا ٹرائل شروع کردیں‘
اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی مدثر نارو کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا ہے کہ متاثرہ صحافی کے اہل خانہ سے ملاقات میں روداد سن کر وزیر اعظم عمران خان سمیت ہم سب شرمندہ تھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ مدثر نارو کی فیملی کو وزیراعظم سے ملوایا اور مدثر نارو نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا کہ اسے لاپتا کر دیا جائے۔
مزیدپڑھیں: سپریم کورٹ کا 5 لاپتا افراد کو 2 ہفتوں میں بازیاب کرانے کا حکم
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ذمہ دار لوگ اپنا کام کریں تو کسی کو نہیں اٹھایا جا سکتا، لوگوں کے لاپتا ہوجانے کا ذمہ دار چیف ایگزیکٹو ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہاں سابق چیف ایگزیکٹوز لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کریڈٹ لیتے ہیں۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ ریٹائر ہونے کے بعد کتابیں لکھ کر سارے دیانت دار بن جاتے ہیں، لوگوں کا لاپتا ہوجانا پاکستان پر دھبہ ہے اور یہ بدقسمتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں کے لاپتا ہونے کی کوئی وضاحت نہیں دے رہا لیکن یہ موجودہ حکومت کو کیسز ورثے میں ملے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ریٹائر ہونے کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ کئی لوگ جہاد کے نام پر بارڈر کراس کر کے چلے گئے اب وہ بھی لاپتا افراد کی کیٹیگری میں شامل ہیں جبکہ مدثر نارو صحافی تھے میں ان کے کیس کو اس کیٹیگری میں نہیں رکھتا۔
مزید پڑھیں: لاپتا فرد کیس: ’عدالتوں سمیت سب جوابدہ ہیں، کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاست کہیں موجود ہوتی تو متاثرہ فیملی عدالت کیوں آتی؟ ہمیں کیوں کہنے کی ضروت پڑتی کہ آپ وزیراعظم کے نوٹس میں لائیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ یہاں تمام ادارے آکر کہتے ہیں ہمیں کچھ پتا نہیں بندہ کہاں ہے، ماورائے عدالت آپ کسی دہشت گرد کو بھی نہیں مار سکتے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا جغرافیہ ایسا ہے نیشنل سیکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ ’اٹارنی جنرل صاحب نیشنل سیکیورٹی شہریوں کی حفاظت میں ہے‘، ایسا رہا تو کیا کل کوئی ایس ایچ او بھی کسی کو اٹھا لے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ’کیوں نہ لاپتا افراد پر سارے چیف ایگزیکٹوز پر آرٹیکل 6 لگادیں، آرٹیکل6 لگا کر تمام متعلقہ چیف ایگزیکٹوز کا ٹرائل شروع کرا دیتے ہیں۔
مزیدپڑھیں: حکومت ملک میں کوئی لاپتا شخص نہیں چاہتی، وزیراعظم
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ جس کو آرٹیکل 6 پر سزا ہوئی ہم تو اس پر عمل درآمد نہیں کرا سکے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ ایک ہال آف شیم بنا دیتے ہیں جس میں سب چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف چیف ایگزیکٹوز کیوں باقی ذمہ داروں کی بھی ہونی چاہئیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ حتمی ذمہ داری چیف ایگزیکٹوز کی ہی ہوتی ہے، ہمیں ایک فیصلہ تو لکھنے دیں نا، کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرائیں۔
جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کچھ بیماریوں کا علاج فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے، 10 لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلیں تو لاپتا ہونے کا سلسلہ رک جائے گا، ایران میں یہ سلسلہ ایسے ہی رکا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ مدثر نارو کے بچے کو عدالت آنے سے پہلے انصاف ملنا چائیے تھا، ہمیں توقع تھی بچے سے ملاقات کے بعد وفاقی کابینہ کچھ کرے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ کیا اس شہر سے مقامی انتظامیہ کی مرضی کے بغیر کسی کو اٹھایا جا سکتا ہے؟ ایک بچے کو اٹھایا جاتا ہے واپس آکر کہتا ہے شمالی علاقوں کی سیر پر تھا۔
مزیدپڑھیں:لاپتا افراد کمیشن نے جبری گمشدگی کے 71 فیصد کیسز نمٹا دیے'
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں، آزاد میڈیا ہوتا تو لاپتا افراد کے خاندان کی تصویریں روز اخبار میں ہوتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ عدالت تو آئین کے مطابق فیصلہ ہی دے سکتا ہے، اٹارنی جنرل آپ آئین کے مطابق معاونت کریں ہم فیصلہ دیتے ہیں، بتائیں آرٹیکل 6 کے تحت فیصلہ دے دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ مجھے کچھ وقت دیں، میں نے ایسا کیس زندگی میں نہیں لڑا، میں اٹارنی جنرل ہوں معاونت کروں گا، اپنے خیالات عدالت کو بتاوں گا ریٹائرمنٹ کے بعد کتاب میں نہیں لکھوں گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ جبری گمشدگی کرپشن کی بدترین شکل ہے، اگر کوئی کرپشن کے خلاف ہے تو اس سلسلے کو بند کرائے، فیصلے کے بعد کوئی اور عدالت آیا تو فیصلے کے مطابق کارروائی ہو گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لاپتا افراد پر آئین کے مطابق کیا فیصلہ دیں، 18 جنوری کو بتائیں۔