گورنر سندھ کا بلدیاتی حکومت ترمیمی بل پر دستخط سے انکار
کراچی: گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے متعدد اعتراض لگا کر سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021 منظور کرنے سے انکار کردیا اور نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ سندھ اسمبلی بھجوا دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گورنر نے خود ایک نجی نیوز چینل پر اس کی تصدیق کی اور مذکورہ بل کو بلدیاتی حکومت کو ’ڈمی میئر کے ذریعے چلنے والا ناکارہ نظام‘ بنانے کا اقدام قرار دیا۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ بل ناقابل قبول تھا جس میں متعدد خامیاں تھیں، ان خامیوں نے اسے متنازع بنایا اور بل ’مخصوص ایجنڈے‘ پر مبنی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود بلدیاتی ترمیمی بل منظور
عمران اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ’میں نے بل واپس بھجوا دیا ہے اور سندھ اسمبلی کو اسے ٹھیک کرنے کا کہا ہے‘۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ یہ بل جمہوریت کی روح کے منافی ہے اور بلدیاتی حکومتوں سے ہر اختیار اور طاقت لے کر انہیں صوبائی حکومت کے ماتحت کردے گا جبکہ ہر وہ ذریعہ بھی بند کردے گا جس سے بلدیاتی نمائندوں کے لیے وسائل پیدا ہوتے ہیں، ایک جمہوری جماعت یا نظام بلدیاتی حکومت کے لیے اس طرح کے ماڈل کی کس طرح اجازت دے سکتی ہے۔
10 بڑے اعتراضات
ایک سینیئر افسر نے ان 10 مختلف اعتراضات کی وضاحت کی جو گورنر نے بل پر اٹھائے تھے اور ہر اعتراض کے لیے اپنی تجاویز بھی بھیجیں۔
گورنر کے اعتراضات آئین کی دفعہ 140-اے کے نزد گھومتے ہیں جو ملک کے کسی بھی صوبے میں بلدیاتی نظام کے حقیق ماڈل، تاثیر اور مینڈیٹ کو بیان کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی وزیر کا سندھ کے بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف مہم چلانے کا عندیہ
گورنر کے اعتراضات میں میئر/چیئرمین کا خفیہ بیلٹ کے ذریعے انتخاب بھی شامل تھا جس سے ان کے مطابق ہارس ٹریڈنگ کا راستہ کھلے گا اور پورا انتخابی عمل روند دیا جائے گا۔
دوسرا انہوں نے بلدیاتی حکومت کے بل میں شامل کی گئی ایک دفعہ 140-اے پر بھی اعتراض کیا جو صوبائی حکومت کو بل کی کسی بھی شق میں کسی بھی اسٹیک ہولڈر سے رائے لیے بغیر اور بلدیاتی حکومت کے نمائندوں کی لاعلمی میں ترمیم کرنے یا کوئی نئی شق شامل کرنے کا اختیار دیتی ہے۔
ٹاؤنز کی تشکیل پر اعتراض
گورنر نے اپنے اعتراضات میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے خاتمے اور ان کی جگہ ٹاؤن سسٹم نافذ کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے۔
گورنر کا ایک اور اعتراض کسی غیر منتخب شخص کو میئر بننے کی اجازت دینے پر تھا، انہوں نے تنقید کی کہ اس طرح کوئی غیر منتخب شخص کے مضبوط مالی پوزیشن یا حکمراں جماعت سے قریبی تعلقات کی بنیاد پر میئر بننے کی راہ ہموار ہوگی۔
ساتھ ہی انہوں نے مذکورہ بل کے ذریعے صوبائی حکومت کی جانب سے میونسپل آرگنائزیشنز سے تعلیم، ہنر مندی اور صحت کے ادارے لینے کے طریقے پر بھی سنگین تشویش کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام دو ہزار تیرہ کا بل منظور
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے تحت چلنے والے ہسپتال، اسکولز اور ٹریننگ سینٹرز سندھ حکومت کی چھتری تلے آجائیں گے جس سے بلدیاتی حکومت کا شہر کی تعلیم و صحت کی ترقی پر کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
آئین کیا کہتا ہے؟
آئین کی دفعہ 116 کی شق 3 اور 4 کہتی ہے کہ ’جب گورنر نے کوئی بل صوبائی اسمبلی کو واپس بھیج دیا ہو تو اس پر صوبائی اسمبلی دوبارہ غور کرے گی اور اگر صوبائی اسمبلی حاضر اور ووٹ دینے والے ارکان کی اکثریتی ووٹ سے ترمیم کے ساتھ یا بلاترمیم بل دوبارہ منظور کرے تو اسے دوبارہ گورنر کو پیش کیا جائے گا اور پھر گورنر 10 روز میں اس کی منظوری دے گا جس میں ناکامی کی صورت میں سمجھا جائے گا کہ منظوری ہوچکی ہے‘۔
اسی طرح ’گورنر نے کسی بل کی منظوری دی ہو یا اس کی دی گئی منظوری متصور ہو تو وہ قانون بن جائے گا اور صوبائی اسمبلی کا ایکٹ کہلائے گا‘۔