ایک دوسرے سے کافی دور مقیم ویکسین شدہ 2 افراد میں اومیکرون پھیلنے کا انکشاف
ہانگ کانگ کے ایک قرنطینہ ہوٹل میں ویکسینیشن مکمل کرانے والے 2 مسافروں میں کافی فاصلے کے باوجود کورونا کی نئی قسم اومیکرون پھیل گیا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے طبی ماہرین اس کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں۔
یہ بات ہانگ کانگ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوا کہ دونوں میں سے کوئی بھی فرد نہ تو اپنے کمرے سے باہر نکلا اور نہ ہی ان کا کسی اور رابطہ ہوا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ ہوا کے ذریعے اومیکرون کا پھیلاؤ اس وقت ہوا جب کھانے لینے یا کووڈ ٹیسٹنگ کے دوران ان کے کمروں کے دروازے کھولے گئے۔
خیال رہے کہ اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں، جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے کہ کورونا کی نئی قسم ویکسین سے ملنے والے تحفظ پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں کہا تھا کہ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اومیکرون کی میوٹیشنز کے ویکسینز کی افادیت پر مرتب اثرات اور اس کے پھیلاؤ کی رفتار کو سمجھنے کے لیے فوری طور پر تحقیقی کام شروع کیا جن کے نتائج آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آسکتے ہیں۔
ہانگ کانگ میں ہونے والی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ قرنطینہ ہوٹل میں ایک دوسرے سے کافی دور مقیم ایسے افراد جن کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی، میں اومیکرون کی تشخیص سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں کورونا کی اس نئی قسم کو سب سے پہلے شناخت کیا گیا تھا اور وہاں نومبر کے آخر سے کووڈ کیسز کی تعداد میں ڈرامائی اجافہ ہوا ہے۔
جنوبی افریقہ سے باہر بھی درجنوں ممالک میں اب تک اومیکرون کے کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔
جنوبی افریقہ میں اومیکرون سے متاثر بیشتر افراد میں بیماری کی شدت معمولی دریافت ہوئی مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی کوئی نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا اور تحقیقی رپورٹس کے اجرا تک کورونا کی یہ نئی قسم ایک نامعلوم خطرہ ہی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ دونوں مسافروں میں سے ایک 11 نومبر کو جنوبی افریقہ سے ہانگ کانگ پہنچا تھا جبکہ دوسرا اس سے ایک دن پہلے کینیڈا سے یہاں آیا تھا۔
دونوں افراد نے فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال ک یتھیں اور ہانگ کانگ آمد سے قبل کووڈ ٹیسٹ نیگیٹو رہے تھے۔
محققین نے بتایا کہ ہانگ کانگ آمد پر دونوں افراد کو ایک ہی قرنطینہ ہوٹل میں رکھا گیا اور دونوں کے کمرے ایک ہی منزل پر کافی فاصلے پر تھے۔
تحقیق کے مطابق قرنطینہ کے دوران دونوں میں سے کوئی بھی کمرے سے باہر نہیں نکلا اور نہ ہی دونوں کے کمروں میں اشیا شیئر ہوئین جبکہ دیگر افراد بھی ان کے کمروں میں داخل نہیں ہوئے۔
محققین نے بتایا کہ ہوٹل کی راہداری میں ہوا کے ذریعے وائرل ذرات سے ایک سے دوسرے فرد میں بیماری کی منتقلی ہی ممکنہ وجہ تھی اور اس طرح کے پھیلاؤ سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم زیادہ متعدی ہے۔
جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافر میں کوونا وائرس کی تشخیص 13 نومبر کو ہوئی تھی جس میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں، جس کے بعد اگلے دن یعنی 14 نومبر کو ہسپتال لے جاکر آئسولیٹ کردیا گیا۔
دوسرے مسافر میں 17 نومبر کو معمولی شدت کی علامات ظاہر ہوئیں اور اگلے دن کووڈ کی تشخیص ہوئی اور پھر ہسپتال منتقل کیا گیا۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی ابتدائی ہیں اور وہ ایک تحقیقی مقالے کی شکل میں جریدے جرنل ایمرجنگ انفیکشیز ڈیزیز کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئے۔