میانمار: فوج کے خلاف اکسانے کا الزام، آنگ سان سوچی کو 4 سال کی سزا
میانمار کی فوجی حکومت جنتا نے ملک کی نوبیل انعام یافتہ برطرف رہنما آنگ سان سوچی کو فوج کے خلاف اکسانے اور کووڈ۔19 قوانین کی خلاف ورزی پر چار سال قید کی سزا سنا دی تاہم ناقدین نے اس فیصلے کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق صدر وِن مائینٹ کو بھی انہی الزامات پر 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
میانمار میں فوج کی جانب سے سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے اور اس میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
نوبیل امن انعام یافتہ 76 سالہ آنگ سان سوچی کو ان کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ بغاوت کے بعد سے حراست میں لیا گیا تھا جبکہ پارٹی کے دیگر رہنما بیرون ملک یا روپوش ہیں اور جماعت کا کوئی ترجمان تبصرہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: میانمار: آنگ سان سوچی پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام عائد
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 76سالہ آنگ سان سوچی رواں سال یکم فروری کو حکومت کے خاتمے اور فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد سے جیل میں ہیں جہاں ان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی میانمار میں جمہوری حکومت کا مختصر دور بھی اختتام کو پہنچ گیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد سے سرکاری سیکرٹ ایکٹ، واکی ٹاکی غیرقانونی درآمدات اور انتخابات میں فراڈ سمیت متعدد مزید الزامات کا سامنا ہے تاہم تجربہ کار سیاستدان ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہیں۔
جنتا کے ترجمان زا من تُن نے اے ایف پی کو فون پر بتایا کہ سوچی کو فوج کے خلاف اُکسانے پر دوسال اور کووڈ۔19 قوانین کی خلاف ورزی پر بھی دو سال کی سزا سنائی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے سابق صدر ون مینٹ کو بھی انہی الزامات پر چار سال قید کی سزا سنائی گئی ہے البتہ انہیں ابھی تک جیل نہیں بھیجا گیا۔
جنتا کے ترجمان نے بتایا کہ ان دونوں حکمرانوں کو مزید الزامات کا بھی سامنا ہے لہٰذا انہیں مزید سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
فوج کے خلاف اکسانے کے الزامات کا تعلق آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے اس بیان سے ہے جو انہوں نے فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد جاری کیا تھا اور اس میں فوجی اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسی طرح کووڈ۔19 پروٹوکولز کی خلاف ورزی کے الزامات کا تعلق گزشتہ سال کے انتخابات سے ہے جس میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی البتہ اس حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
خصوصی عدالت کی جانب سے مقدمے کی سماعت میں صحافیوں اور میڈیا کو آنے کی اجازت نہ تھی جبکہ سوچی کے وکلا کی بھی میڈیا سے گفتگو پر حال ہی میں پابندی عائد کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے متعدد سینئر اراکین کو طویل مدت کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ کو 75سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ سوچی کے ایک قریبی ساتھی کو 20سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اقوام متحدہ، عالمی طاقتوں اور اداروں کی فیصلے پر تنقید
امریکا، برطانیہ سمیت عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے اداروں نے اس سزا کو بدترین سفاکیت اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مچیل بیچلیٹ نے سوچی کی سزا پر میانمار کی فوجی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔
انہوں نے کہا کہ فوجی اثرورسوخ کی حامل عدالتوں میں خفیہ کارروائی کے ذریعے شرمناک ٹرائل کی شکل میں سوچی کو سزا سنانا سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمے سے بڑھ کر کچھ نہیں، یہ محض ان کی آزادی پر ضرب نہیں بلکہ ایک اور سیاسی دروازہ بند کرنے کے بھی مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: غداری کے مقدمے میں آنگ سان سوچی کے خلاف ٹرائل کا آغاز
بین الاقوامی گروپ برائے بحران میانمار کے ماہر تھینک ٹینک رچرڈ ہارسی کا کہنا ہے کہ معروف رہنماؤں کے خلاف بنائے گئے مقدمات من گھڑت تھے، یہ مقدمات رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر بنائے گئے تھے، اس لیے انہیں قصوروار ٹھہرانا اور قید کی سزا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے بتایا کہ فیصلے کے حوالے سے تبصرہ کرنے پر جب فوج کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
آنگ سان سوچی کو درجنوں مقدمات کا سامنا ہے جن میں متعدد کرپشن کے کیسز اور ریاست کے خفیہ رازوں کے قانون اور کورونا وائرس کے قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات شامل ہیں، ان الزامات کی مجموعی سزا ایک صدی قید بنتی ہے۔
سوچی کے حامیوں نے الزامات بے بنیاد قرار دے دیے
آنگ سان سوچی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات بے بنیاد ہیں اور ان کے سیاسی کیریئر کو ختم اور انہیں قانونی کارروائیوں میں جکڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ فوج اپنی طاقت کو مضبوط کر رہی ہے۔
سزا سنائے جانے کے بعد 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن کےنائب وزیر ماؤ ہٹن آنگ کا کہنا ہے کہ،مجھے اس ٹوٹے ہوئے نظام انصاف سے کسی چیز کی توقع نہیں ہے۔
جنتا کا کہنا ہے کہ سوچی کے کیس کی کارروائی ان کی اپنی انتظامیہ کے ذریعے مقرر کردہ جج کی سربراہی میں ایک آزاد عدالت میں کروائی گئی۔
میانمار کی آزادی کے ہیرو کی بیٹی سوچی نے فوجی حکمرانی کی مخالفت کی وجہ سے کئی سال گھر میں نظر بند ہوکر گزارے لیکن 2010 میں انہیں رہا کر دیا گیا اور 2015 کے انتخابات میں این ایل ڈی کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔
ان کی پارٹی نے گزشتہ سال نومبر میں دوبارہ کامیابی حاصل کی لیکن فوج نے کہا کہ ووٹ میں دھاندلی کی گئی اور ہفتوں بعد ہی اقتدار پر دوبارہ قبضہ کر لیا، الیکشن کمیشن نے اس وقت انتخابات میں دھاندلی کی فوج کی شکایت کو مسترد کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں: 'آنگ سان سوچی کے قابلِ افسوس اقدامات کے باوجود نوبل انعام واپس لینا ممکن نہیں'
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ سوچی کے خلاف الزامات مضحکہ خیز ہیں اور انہیں جیل بھیجنا فوج کے اپوزیشن کو ختم کرنے اور آزادیوں کا گلا گھونٹنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
مؤرخ اور مصنف تھانٹ مائنٹ یو نے رائٹرز کو بتایا، 'وہ میانمار کی سیاست میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور اب بھی آنے والے دنوں میں ایک طاقتور قوت ثابت ہو سکتی ہیں'۔
مغربی ریاستوں نے سوچی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور بغاوت کے بعد تشدد کی مذمت کی ہے۔
فورٹیفائی رائٹس گروپ کے چیف ایگزیکٹو میتھیو اسمتھ نے سوچی اور دیگر سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سزا 'شہری آبادی پر بڑے پیمانے پر منظم حملے کا حصہ ہے۔