'سخت ایکشن لینے کا وقت آگیا، حکومت کی توجہ قوانین کے نفاذ پر ہے'
سیالکوٹ میں سری لنکن مینیجر کو تشدد کے بعد قتل اور لاش جلانے کے واقعے کے حوالے سے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ہمیں اپنے قوانین کا دوبارہ جائزہ لینا ہے اور دیکھنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کہاں عملدرآمد نہیں ہورہا۔
ڈان نیوز کے نمائندے سے خصوصی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوانین موجود تھے اور متعدد قوانین ہماری حکومت سے پہلے کے تھے لیکن گزشتہ حکومتوں میں ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی توجہ قوانین پر عملدرآمد پر ہے، جن قوانین میں کوئی خلا ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل، پاکستان کیلئے شرم ناک دن ہے، وزیراعظم
سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کس طرح ہجوم نے تشدد کیا اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے کہاں تھے اور وقت پر کیوں نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ چیزیں سامنے آرہی ہیں کہ ہجوم نے کیوں اور کس طرح تشدد کیا، لوگوں کی نشاندہی ہوگئی، گرفتار ہوگئے ہیں جن میں سے کچھ آج عدالت میں پیش ہوئے ہیں اور امید ہے کہ عدالتیں بھی اس سلسلے میں سختی سے قانون کو لاگو کریں گی۔
ایک سوال کے میں انہوں نے کہا کہ ہمیں لوگوں کی ذہنیت بدلنی ہے جس کے لیے پورے معاشرے کا تعاون چاہیے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاہم سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ قانون نافذ ہو، سختی سے ہو اور جلد از جلد ہو تا کہ قوم اور دنیا کو صحیح پیغام جائے کہ جو شہری اس قسم کا کام کریں تو پاکستان اس کی مذمت کرتا ہے اور سزا دیتا ہے۔
مزید پڑھیں:پریانتھا کمارا کی اہلیہ کی پاکستانی، سری لنکن رہنماؤں سے انصاف کی اپیل
اسی حوالے سے انہوں نے کہا مجرموں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، اس قسم کے واقعات بالکل ناقابل قبول ہیں اور اس طرح لوگوں کو جلا کر مار کر مذہب کی توہین کرنا بالکل غلط اور انسانیت کے خلاف ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اصل چیز یہ ہے کہ اب ہمیں ایکشن لینا ہے، اپنے قوانین کا دوبارہ جائزہ لینا ہے اور دیکھنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کہاں عملدرآمد نہیں ہورہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کو نافذ کرنا ہے، جو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد تشکیل دیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوسکا، ہمارا فرض ہے اسے سختی سےنافذ کریں تاکہ ہمارے معاشرے میں اس قسم کا تشدد نہ ہو۔
شیریں مزاری نے کہا کہ سیالکوٹ کا بھیانک واقعہ پوری قوم کے لیے ایک شرمناک دن تھا کہ ہم دنیا کے سامنے خود کو کس طرح پیش کررہے ہیں جبکہ ہم ایک مسلمان ملک ہے، اسلام مذہب اور رواداری کا مذہب ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ سیالکوٹ: مزید 6 مرکزی ملزمان زیر حراست، دیگر کی تلاش میں چھاپے جاری
انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیالکوٹ کا واقعہ اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں ہے، مشال خان، مسیحی جوڑے کو جلانے اور دیگر کئی واقعات اس سے پہلے بھی ہوچکے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم اور بحیثیت ریاست سختی سے ایکشن لیں کہ ایسے واقعات نہ ہوں اور کریں انہیں قانون کے دائرے میں سخت سے سخت سزا دی جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں ساری شقیں بہت واضح ہیں، ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے جس کی ہم کافی عرصے سے کوشش کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجداری قانون پر نظرِ ثانی اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے گزشتہ حکومت کو 2 سال دیے گئے تھے لیکن انہوں نے اس کا آغاز ہی نہیں کیا، اب ہم نے کردیا ہے اور ایک سے ڈیڑھ مہینے میں پورے قانون کو دوبارہ لکھا اور ٹھیک کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:سری لنکا کے صدر سے سیالکوٹ واقعے پر قوم کے غم وندامت کا اظہار کیا، وزیراعظم
شیریں مزاری نے کہا کہ تمام چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا اور اس پر کابینہ میں بحث بھی ہوگی جس کے بعد پالیسی جاری کی جائے گی۔
'سانحہ پر مولانا فضل الرحمٰن کا بیان شرمناک تھا'
سیالکوٹ واقعے پر مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کا اس طرح کا بیان شرمناک ہے اور وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ ہیں تو پی ڈی ایم جماعتوں کو چاہیے کہ ان کے بیان اور سربراہی سے خود کو الگ کریں۔
انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت یہ دیکھے کہ اس کے رہنما کیا کہہ رہے ہیں، کیا وہ اس طرح کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اپنے بیان کی وضاحت بھی کی ہے کہ میرے یبان کو غلط سمجھا گیا ہے، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس پر توجہ کرنی چاہیے کہ جو انہوں نے کہا وہ غلط سمجھا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ہمارے وزیراعظم اور کابینہ کا مؤقف بہت واضح ہے اور اگر کوئی فرد اس سے ہٹ کر یا اس کے خلاف بات کرتا ہے تو ہماری حکومت کا مؤقف نہیں ہے۔