• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ٹیکس معافیوں سے پاکستان کو کتنا نقصان ہورہا ہے؟

شائع December 8, 2021
لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں
لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں

ہم اپنی آمدنیوں سے پیسے بچا کر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے لیے سب سے پہلے اپنی آمدنیوں کے رجحان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

19ء-2018ء میں سامنے آنے والے Household Integrated Economic Survey (HIES) کے مطابق ہماری اوسط سالانہ گھریلو آمدن 41 ہزار 545 روپے رہی جو 02ء-2001ء میں محض 7 ہزار 168 روپے تھی۔ مطلب یہ کہ گھریلو آمدن میں اوسط سالانہ اضافے کی شرح 10.9 فیصد رہی۔

اس عرصے کے دوران ہر 5 میں سے ایک غریب کی آمدن 4 ہزار 391 سے بڑھ کر 23 ہزار 192 تک پہنچ چکی ہے، یعنی 10.3 کا سالانہ اضافہ ہوا۔ اسی طرح ہر 5 میں سے ایک امیر ترین گھرانوں کی آمدن 11 ہزار 360 روپے سے بڑھ کر 63 ہزار 544 روپے پہنچ گئی ہے، یعنی 10.7 فیصد کا سالانہ اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں مہنگائی میں سالانہ اضافے کی اوسط شرح 7.9 رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصے میں مہنگائی کی کٹوتیوں کے بعد بچنے والی حقیقی آمدنیوں میں اوسط کے اعتبار سے اضافہ ہوا ہے۔

پڑھیے: اسٹیٹ بینک کی متضاد پالیسیاں اور عوام

یاد رہے کہ ہمارا ملک تقریباً 3 کروڑ 40 لاکھ گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اگر مذکورہ بالا اعداد و شمار آپ کے تجربے سے مماثلت نہیں رکھتے تو آپ وہ خوش قسمت ہیں جو گھرانوں کے 5ویں حصوں میں سے ایک اعلیٰ حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اگر HIES کے سروے میں 10 یا ایک فیصدی لحاظ سے اعداد وشمار پیش کیے جاتے تو کئی قارئین خود کو پاکستان کے 10 یا 5 فیصد امیر ترین گھرانوں میں شمار کرتے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بظاہر نظر آنے والی کم گھریلو آمدنیوں کو کمانے والا کوئی فرد واحد نہیں تھا۔ ایک اوسط گھرانہ 6.24 افراد پر مشتمل تھا اور ایک گھرانے میں کمانے والوں کی تعداد 1.86فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھریلو آمدن کے مقابلے میں کمانے والے ایک فرد کی اوسط آمدن کم رہی۔

ہماری قومی بچت کی کم شرح سے متعلق ہم سب جانتے ہیں جس کا 19ء-2018ء کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 10.8 فیصد تھا۔ مگر چند ہی لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ اسی سال ماہانہ گھریلو کمائی میں سے نقدی یا ڈیپازٹس کی صورت میں اوسط ماہانہ بچت کی شرح 4.6 فصد رہی۔ اگر ہم جیولری اور دیگر مالی اثاثوں کی خریداری پر ہونے والے اخراجات کو جوڑ دیں تو 19ء-2018ء میں گھریلو بچت کی شرح 02ء-2001ء میں رہنے والی 6.3 فیصد شرح کے مقابلے میں 8.8 فیصد بنتی ہے۔ اگرچہ اس عرصے کے دوران ہماری بچت کی شرح بڑھی ہے لیکن اس معاملے میں ہماری بہتری کی رفتار بہت زیادہ سست رہی ہے۔

ہمارے ہاں بچت کا رجحان زیادہ نہیں پایا جاتا۔ اس کا تعلق ہماری میکرو ایکنامک پالیسیوں میں موجود بے ترتیبی سے بھی ہے کیونکہ ان پالیسیوں میں بچت سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ آپ سود کی شرح میں موجودہ اور ماضی کے رجحانات پر ہی نگاہ ڈال لیجیے۔ جب بھی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو احتجاجی مظاہروں کا شور شروع ہوجاتا ہے حالانکہ اس اضافے سے بچت کرنے والوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔

ہماری توجہ کا مرکز ہمیشہ 'غریب' قرض دار ہوتے ہیں حالانکہ وہ شرح کے اضافے سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کے منافع میں سے معمولی حصہ ہی کٹتا ہے۔ ڈالر کو سستا رکھنے کا ہمارا شوق بھی بچت کے بجائے خرچ کرنے کو فروغ دیتا ہے۔ کیا ہم بچت کرنے والوں کو مناسب معاشی مراعات دے رہے ہیں؟

پڑھیے: ’اسٹیٹ بینک کو خودمختار ہونا چاہیے مگر آزاد نہیں‘

بینک میں پیسے جمع کروانے والوں کے منافع کی شرح پر ہی نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے۔ 02ء-2001ء سے 19ء-2018ء تک اس میں صرف 4 فیصد کا اوسط اضافہ ہوا۔ اب اس کا موازنہ اسی عرصے کے دوران رہنے والی افراطِ زر کی سالانہ 7.9 فیصد کی اوسط شرح سے کیجیے اور (یہ بھی یاد رہے کہ 2008ء سے 2012ء کے بیچ افراطِ زر دو ہندسوں میں تھی)۔ چنانچہ بینک میں رقم جمع کروانے والوں کے لیے حقیقی شرح بڑے فرق کے ساتھ منفی رہیں۔ پھر کم بچت پر رونا کیسا؟ اگر ہم درست شرح مبادلہ اور شرح سود رکھیں تو ان سے افراطِ زر کو کم رکھنے کے ساتھ بچت کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔

تاہم ہمارے پاس خرچ کرنے کی نفی اور بچت (مالی پالیسیوں) کے فروغ کے لیے دیگر پالیسیاں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں گھرانے ایف بی آر کو بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز گھرانوں کی جانب سے خریدی جانے والی مصنوعات کی قیمتوں میں ضم ہوتی ہیں۔ چنانچہ HIES سروے صرف انکم ٹیکس اور دیگر بلاواسطہ ٹیکسوں پر ہونے والے اخراجات کے تخمینے ہی فراہم کرسکتا ہے۔ ہمارے گھرانے کتنے ٹیکسوں کی ادائیگی کرسکتے ہیں؟ 18ء-2019ء میں ہمارے ایک اوسط گھرانے نے ماہانہ صرف 144.12روپے بلاواسطہ ٹیکس ایف بی آر کو ادا کیا۔

یہ گھریلو آمدن کے ایک فیصد کے آدھے حصے سے بھی کم (0٫35 فیصد) رقم بنتی ہے! اگر 02ء-2001ء کی بات کریں تو اس وقت آمدن کا 0.38 فیصد حصے کے برابر ٹیکس ادا کیا گیا تھا۔ دنیا میں شاید ہی ایسے ملک ہوں گے جہاں کے گھرانے اس رقم سے کم بلاواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتے ہوں گے۔ مثلاً، امریکا میں ایک اوسط گھرانے نے 2019ء میں اپنی آمدن کا 13.7 فیصد حصہ بلاواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کیا تھا۔ یقیناً یہ موازنہ غیر منصفانہ ہے!

تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے گھرانے پورا ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں۔ مگر اسے بھی آدھا سچ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ٹیکسوں کی کم وصولی کی وجہ ہماری ٹیکس پالیسیاں ہیں۔ ہمارے مالی حکام اکثر و بیشتر انکم ٹیکس شرح کو گھٹانے اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کا درجہ بڑھانے میں کنجوسی نہیں کرتے۔ ہمارے وزرائے خزانہ کے ذہنوں پر انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کو 'ریلیف' کی فراہمی کی فکر ہمیشہ سے سوار رہی ہے۔

مثال کے طور پر ایف بی آر ایئر بک 19ء-2018ء کے مطابق ٹیکس وصولی میں کمی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اس سال بجٹ میں اعلان کردہ انکم ٹیکس کی محدود شرح تھی۔ یہاں ہمیں Laffer curve (یہ ایک تھیوری ہے جو ٹیکس کی شرح اور حکومتوں کی طرف سے جمع کی جانے والی ٹیکس آمدنی کی مقدار کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے) کے حامیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو سوچتے ہیں کہ ٹیکس شرح کو گھٹانے سے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ (انکم ٹیکس سے لے کر زرعی و دیگر شعبوں میں) ٹیکس کی بے تحاشا چھوٹ دینے کے ساتھ ٹیکس کی شرح کو گھٹانا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

پڑھیے: ’مجھے نوکری سے نکالا تو میں نے اپنا کام شروع کردیا اور تنخواہ جتنا کما بھی لیا‘

ہم اپنی آمدن کا بیشتر حصہ نجی مصنوعات پر خرچ کرتے ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار کے 93 فیصد سے زائد حصے کے برابر مصنوعات خریدیں، اس لحاظ سے ہم نجی مصنوعات استعمال کرنے والے کئی دیگر ملکوں سے آگے ہیں۔ مگر ہم سڑکوں، پلوں، صاف پانی کی فراہمی، نکاس آب، صفائی کے نظام، داخلی سیکیورٹی وغیرہ جیسی عوامی مصنوعات کی دستیابی اور معیار میں کوتاہی کا گلہ کرتے ہیں۔

ٹیکسوں کی ادائیگی ہی انفرااسٹرکچر کی دستیابی کو یقینی بنانے کا واحد ذریعہ ہے۔ ہم ایک طرف تو اپنی حکومتوں سے بہتر معیار کی عوامی مصنوعات کی فراہمی کا تقاضا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم بلاواسطہ ٹیکس ادا کرنے میں کافی ہچکچاتے ہیں، اور پھر ٹیکسوں کی وصولی میں ہماری حکومت کی غیر سنجیدگی بھی کم نہیں (جو متعدد ٹیکسوں میں مسلسل چھوٹ سے نمایاں ہے)۔

اس کا نتیجہ مالی حکام کے بظاہر ذی شعور اقدامات کی پُرکشش کرتبوں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جس سے تھوڑی بہت آمدن تو ہوتی ہے مگر اس کا حجم ٹیکس چھوٹ کے باعث ہونے والے ٹیکس خسارے کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔

FBR Tax Expenditure کی رپورٹ برائے 2021ء کے مطابق وفاقی ٹیکسوں میں معافیوں کے باعث ایک ہزار 314 ارب روپے کا خسارہ پیدا ہوا جو مجموعی قومی پیداوار کے 3.2 فیصد حصے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنی غلطیوں (غافل میکرو اکنامک پالیسیوں) کے لیے غیر ملکیوں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ ہم خود کو تباہ کر رہے ہیں اور آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ مسئلہ ہماری تقدیر میں نہیں بلکہ ہمارے اپنے اندر ہے۔


یہ مضمون 6 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ریاض ریاض الدین

لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024