معاہدہ بچانے کیلئے مذاکرات کے باوجود ایران جوہری پیش رفت کر رہا ہے، عالمی ادارہ
اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ایران نے ایک پہاڑ میں واقع فوردو پلانٹ میں زیادہ مؤثر و جدید سینٹری فیوجز کے ساتھ یورینیم کی افزودگی شروع کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق امریکا اور ایران کے مابین 2015 کے منسوخ شدہ جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے کوششیں تہران کے اقدام سے متاثر ہوسکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی میں پیشرفت
مغربی مذاکرات کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایران بات چیت میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے زمینی حقائق پیدا کر رہا ہے۔
مذاکرات کے تیسرے روز آئی اے ای اے نے کہا کہ ایران نے فوردو میں 166 جدید ترین آئی آر 6 مشینوں کے ایک کلسٹر کے ساتھ 20 فیصد تک خالص یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی آر 6 مشینیں پہلی جنریشن کی آئی آر ون سے کہیں زیادہ مؤثر ہیں۔
ایجنسی نے اپنے بیان میں کہا کہ آئی آر 6 مشینیں فوردو میں نصب ہیں جو ابھی کام نہیں کر رہی ہیں۔
آئی اے ای اے کی ایک جامع رپورٹ میں کہا گیا کہ ایران کے اس اقدام کے نتیجے میں جوہری نگران ادارے نے فوردو فیول افزودگی پلانٹ کے معائنے کا منصوبہ بنایا جس میں سینٹری فیوجز رکھے گئے ہیں لیکن تفصیلات تاحال واضح ہونے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ویانا میں اقوام متحدہ کی تنظیموں میں ایران کے مستقل مشن نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں آئی اے ای اے کی حالیہ رپورٹ، ایران میں باقاعدہ تصدیق کے مطابق ایک عام اپ ڈیٹ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان
تاہم آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے واضح کیا کہ وہ اس پیشرفت کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
رافیل گروسی نے فرانس کے نشریاتی ادارے ’فرانس 24‘ کو بتایا کہ یہ غیر معمولی بات نہیں ہے، ایران یہ کر سکتا ہے لیکن اگر آپ ایسے کوئی عزائم نہیں رکھتے تو معائنہ قبول کرنے کی درخواست قبول کرنی چاہیے۔
خیال رہے کہ ستمبر 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سخت مؤقف کے باوجود ایران کے جوہری معاہدے میں دوبارہ جان ڈالنے کے لیے واشنگٹن اور تہران کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے سمجھوتے کا امکان ظاہر ہوا تھا۔
اصلاح پسند اخبار 'شارغ' کے ایڈیٹر مہدی رحمانین کا کہنا تھا کہ 'ویانا مذاکرات یقینی طور پر دوبارہ شروع ہوں گے اور عملی شکل اختیار کریں گے کیونکہ دونوں فریقین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ لائحہ عمل جاری نہیں رکھا جاسکتا'۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے نئے قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی نے جوہری معاہدے کی بحالی کی حمایت میں آواز بلند کی حالانکہ وہ امریکا کو جھڑک چکے ہیں۔
ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں جوہری معاہدے میں واپسی اور پابندیاں ختم کرنے کی خواہش کی تجدید کی، لیکن اس بات پر قائم رہے تھے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار
ایران اور 2015 کے جوہری معاہدے کے دیگر پانچ شراکت دار ممالک چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ کے درمیان اپریل میں شروع ہونے والے مذاکرات کا مقصد معاہدے میں امریکا کو دوبارہ شامل کرنا تھا۔
تاہم مذاکرات جون میں ابراہیم رئیسی کے صدارتی انتخاب جتنے کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ جوہری معاہدے کی نگرانی کر رہا ہے اور معاہدے کے ذریعے ایران کو جوہری پروگرام پر سخت کنٹرول کے بدلے پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔
تاہم امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں معاہدے سے یکطرفہ طور پردستبردار ہوگئے تھے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھی، نتیجتاً تہران نے آہستہ آہستہ جوہری معاہدے سے متعلق اکثر وعدوں کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔
جو بائیڈن نے معاہدے میں واپسی کا اشارہ دیا تھا اور جواب میں ایران یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ انہیں مذاکرات کرنے کی کوئی جلدی نہیں اور وہ اپنی شرائط پر ہی آگے بڑھیں گے۔