• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سپریم کورٹ: 16 ہزار ملازمین کی برطرفی، حکم امتناع پربحالی کی درخواست مسترد

شائع December 1, 2021 اپ ڈیٹ December 2, 2021
وفاقی حکومت نے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
وفاقی حکومت نے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے 16 ہزار ملازمین کی برطرفی کے فیصلے خلاف دائر کی گئی نظر ثانی درخواست کی سماعت کے دوران حکم امتناع پر بحال کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

جسٹس عمر بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 16 ہزار ملازمین کی برطرفی کے فیصلے کے خلاف حکومت کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کوشش کریں گے کہ روزانہ سماعت کرکے آئندہ ہفتے مختصر فیصلہ سنا دیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاق کے نمائندے کی حثیت سے دلائل دوں گا، انفرادی ملازم کے حوالے سے دلائل نہیں دوں گا۔

ملازمین کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ میرے 173 موکل ایکٹ کے تحت نہیں آرڈیننس کے تحت بحال ہوئے تھے اور سپریم کورٹ نے بحال ایکٹ کالعدم قرار دیا ہے اور آرڈیننس کالعدم قرار نہیں دیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ حکومت خود ملازمین کی بحالی کے لیے عدالت میں آئی ہے، اگر ملازمین کو غلط نکالا گیا ہے تو حکومت ان کو بحال کرے۔

انہوں نے کہا کہ بعض اداروں نے ملازمین کے معاہدے ختم ہونے پر انہیں نکالا، معاہدے میں توسیع کا مطلب ہے کہ ملازمین اس قابل نہیں تھے، کیا ایسے ملازمین کو قانون بنا کر زبردستی بحال کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمین کی برطرفی کا معاملہ، قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین میں گرما گرم بحث

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 12 سال بعد برطرف ملازمین کی بحالی نئے امیدواروں کی حق تلفی ہے، ملازمت کے لیے اپلائی کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے،

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ملازمین کی بحالی اور مراعات دینے کے لیے قانون موجود ہے، کیا کام کیے بغیر کسی کو 12 سال کی تنخواہ دینے کا قانون بن سکتا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ایسے ملازمین کو بھی بحال کیا گیا جن کی اپیلیں سپریم کورٹ سے مسترد ہوچکی تھیں، عدالت نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین سے متصادم ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جن کے معاہدے ختم ہو چکے تھے انہیں کیسے 12 سال بعد بحال کیا گیا، اس موقع پر ملازمین کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ لوگوں کی عمر زیادہ ہوچکی ہیں، ان کے بچے اسکول جا رہے ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عدالت میں صرف قانون کی بات کریں، ریٹائرڈ ملازمین کو ایک دن نوکری پر بلا کر تمام مراعات دی گئیں۔

جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ خلاف قانون ملازمین کی تعیناتی اور بحالی غیرآئینی ہوتی ہے، ممکن ہے کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا ہو۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی دور کے قانون کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ مخصوص افراد یا فرد واحد کے لیے بنائے گئے قوانین ماضی میں بھی کالعدم ہوچکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کے تحت برطرف ملازمین کو حکم امتناع پر بحال کرنے اور نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ آنے تک ملازمین کو میڈیکل الائونس دینے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی اور کہا کہ پیر سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔

یاد رہے کہ جسٹس مشیر عالم نے اپنے عہدے کے آخری دن 17 اگست کو پی پی پی دور کے برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010 (ایس ای آر اے) کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا، جس کے تحت 90-1989 میں متعدد افراد کو ملازمت یا ترقی دی گئی تھی۔

بعد ازاں ستمبر میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری کی جانب سے دائر کردہ نظرثانی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے 17 اگست کا فیصلہ واپس لینے اور اس دوران اس کی کارروائی معطل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست میں 93 افراد کو فریق بنایا گیا ہے جس میں زیادہ تر وہ افراد شامل تھے جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہوئے اور کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے باوجود ایس ای آر اے کو غیر قانونی قرار دیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس ایکٹ سے براہِ راست مستفید ہونے والے ملازمین کی بڑی تعداد کو اب تک کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا جو عدالت میں سنوائی کا موقع ملے بغیر اپنی ملازمت کھو چکے ہیں یا کھو دیں گے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 2010 میں عدالتی حکم کے باوجود اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مطلوبہ لازمی قواعد کے حوالے سے کوئی باقاعدہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024