جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ’اشر‘
جنگلات کی کٹائی ایک خلافِ فطرت عمل ہے اور عصرِ حاضر میں جب پوری دنیا کو بدترین فضائی آلودگی اور موسمی حدت کا مسئلہ درپیش ہے ایسے میں درختوں کی کٹائی گویا پوری انسانیت کو تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے۔
ہماری زمین بہت تیزی کے ساتھ جنگلات سے محروم ہورہی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ ماحولیات کے تحفظ پر کافی بات ہوتی ہے اور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی کئی صورتوں میں جاری ہے۔ محققین کے مطابق جنگلات کی کٹائی ایک غیر معمولی انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔
بلوچستان میں وادئ ژوب اور شیرانی کے شین غر، کوہِ سلیمان، سانگے غر، قمردین کاریز و دیگر علاقوں میں انواع و اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص کوہِ سلیمان کے دامن میں واقع شین غر، تور غر، اوبشتہ، پونگہ منڑہ جیسے علاقے چلغوزے کے قیمتی جنگلات سے مالا مال ہیں۔
اسی طرح ان علاقوں میں زیتون اور دیگر اقسام کے پیڑوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ تاہم گزشتہ 10، 15 سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ کر مقامی افراد اور ٹمبر مافیا نے ان خوبصورت جنگلات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کے متعلقہ ادارے اگرچہ اس بربادی کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔
لیکن بھلا ہو ان نوجوانوں کا جنہوں نے رواں سال اپریل سے نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا بلکہ ژوب ڈویژن کے مختلف اضلاع ژوب، شیرانی، قلعہ سیف اللہ اور لورالائی میں اپنی مدد آپ کے تحت تقریباً 60 ہزار درخت لگا کر ماحول دوستی کا ثبوت دیا۔
سالمین خپلواک کی سربراہی میں شروع ہونے والی یہ مہم اشر کہلائی جس میں یہاں کے درجنوں نوجوانوں نے حصہ لیا۔ ہم آپ کو یہاں بتاتے چلیں کہ 'اشر' اس اجتماعی کُمک کا نام ہے جو پشتون معاشرے میں لوگوں کی رضاکارانہ طور پر مدد کرتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اشر میں لوگ صرف فرد واحد کا ہاتھ بٹائیں بلکہ اس کے ذریعے سماج کے مشترکہ کاموں اور مسائل کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیے: پختون رسم ’اشر‘ سے ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے
اشر پشتونولی (پشتونوں کی ضابطہ حیات) کا ایک اہم عنصر ہے جس کے ذریعے ایک طرف جہاں ہفتوں کا کام چند دنوں میں نمٹایا جاتا ہے وہیں دوسری طرف یہ اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا ایک بہترین وسیلہ بھی بنتا ہے۔
سالمین خپلواک ژوب میں مقیم ایک استاد اور سماجی کارکن ہیں، انہوں نے جنگلات کی کٹائی کے خلاف علم بلند کرکے اپنے علاقے کے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ سالمین کے مطابق چونکہ درخت لگانے کی مہم میں انہیں ایک مضبوط ٹیم مطلوب تھی لہٰذا انہوں نے مقامی نوجوانوں کو اس مہم کا حصہ بننے کے لیے راغب کیا۔
سالمین کہتے ہیں کہ نوجوانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان کے دو لطیف ساتھیوں نے بھی بھرپور انداز میں ان کا ساتھ دیا۔ وہ مقامی افراد کا حوصلہ بڑھانے کے دوران اپنے لطیفوں سے محظوظ بھی کرتے رہے۔
مقامی افراد کی یہ کاوشیں رنگ لے آئیں اور چند ہی دنوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شجرکاری کے اشر کے لیے جمع ہوگئی۔ سالمین کے مطابق اشر کی سخت جاں ٹیم نے نہ صرف ژوب ڈویژن کے اضلاع ژوب، قلعہ سیف اللہ اور لورالائی کے مختلف تعلیمی اداروں میں 60 ہزار سے زائد درخت لگائے ہیں بلکہ طلبہ کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنا کر لورالائی میں ایک منٹ میں 900 درخت لگانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔
ماحولیات پر تاریخ کے پہلے جرگے کا انعقاد
اشر کی ٹیم نے 20 نومبر کو ژوب کے سلیازہ نامی مقام پر ایک قبائلی جرگے کا بھی اہتمام کیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 500 افراد نے شرکت کی۔ پشتون معاشرے کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا جرگہ تھا جس کا ایجنڈا ماحولیات جیسے عالمگیر مسئلے کو اجاگر کرنا اور اس حوالے سے عوامی شعور و آگہی کو پیدا کرنا تھا۔
اس جرگے میں بطور مہمان خصوصی شریک سیکریٹری ماحولیات دوستین جمالدینی کے علاوہ سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر عمر بابر، سابق کمشنر رخشان ڈویژن ایاز خان مندوخیل، محکمہ نیاز کاکڑ، امین مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر بایزید روشان، جمیعت علمائے اسلام کے محمد خان کبزئی، عوامی نیشنل پارٹی کے امان اللہ حریفال، قطب خان آفاقی اور دیگر مہمانوں نے شرکت کی۔ حاضرین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کے شکار کے خلاف کسی بھی طرح کا تعاون فراہم کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔
جرگے کی قراردادیں
جرگے کی بیٹھک کے اختتام پر کئی قراردادیں بھی پیش کی گئیں جنہیں شرکا نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔ چند قراردادیں مندرجہ ذیل ہیں:
- یہ جرگہ محکمہ جنگلات وجنگلی حیات اور محکمہ زراعت سے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
- یہ جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت یہاں کے لوگوں کو سردی کے موسم میں لکڑی کے متبادل وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ جنگلات کی کٹائی کی نوبت نہ آئے۔
- جرگے کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ ادارے یہاں موجود زیتون کے قدیم درختوں کی گنتی کرکے اس کی پیوند کاری کا اہتمام کریں اور موسم کی مناسبت سے شجرکاری کی غرض سے مختلف اقسام کے بیجوں اور پودوں کی فراہمی میں بھرپور تعاون کریں۔
- جرگہ ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ انتظامیہ اشر کمیٹی کی شکایت پر آئندہ جنگلات کی کٹائی میں ملوث پائے جانے والے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرے۔
- جرگہ مطالبہ کرتا ہے کہ لورالائی میں زیتون کا تیل کشید کرنے والے خراب پلانٹ کی جلد از جلد مرمت کی جائے۔ نیز حکومت محکمہ جنگلات کے ملازمین کو ہر قسم کے وسائل فراہم کرے۔
- جرگہ حکومت سے مکمل تعاون کی اپیل کرتا ہے اور یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ماحول کی حفاظت میں مزید کوتاہی برتنے سے گریز کیا جائے۔
- جرگے کے شرکا یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر سال دیہاتوں میں درخت لگانے کے لیے اشر کیا جائے گا اور لوگوں کو اس کام کی انجام دہی کے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
عوامی آگاہی کی کوششیں
موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق شعور و آگہی پھیلانے کے لیے بلوچستان کے مختلف حکومتی عہدیداروں کے ساتھ پشتو کے نامور موسیقاروں نے عوام کے نام اپنے اپنے پیغامات بھی جاری کیے۔ معروف پشتو گلوکار کرن خان نے اپنے پیغام میں لوگوں سے اپیل کی کہ لوگ اشر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے ماحول کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
کرن خان کا کہنا ہے کہ ہر ایک شخص کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک درخت لگا کر انسان دوستی کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سینیٹر انوارالحق کاکڑ، بلوچستان اسمبلی میں ژوب کے نمائندہ مٹھا خان کاکڑ و دیگر نے بھی آن لائن پیغامات کے ذریعے لوگوں سے اشر تحریک میں شمولیت اختیار کرنے اور تحفظِ ماحولیات میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی اپیل کی۔
جنگلات کے تحفظ کے لیے آخر ایسے عوامی قدامات کی ضرورت کیوں پڑی؟
عبدالستار ایدھی کی وفات پر کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ 'جہاں ریاستیں زندہ ہوتی ہیں وہاں عبدالستار ایدھی پیدا نہیں ہوتے'۔ اس جملے کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ عوام کی جان و مال، عزت و آبرو کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ریاست اپنا فرض پورا کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں عوام کو ان کے حقوق فراہم کرے تو عبدالستار ایدھی جیسے لوگوں کو فلاحی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
اسی طرح سے جنگلات کے حوالے سے جب بھی کسی صاحبِ رائے سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر سالمین خپلواک کو اس کام کے لیے کیونکر آگے بڑھنا پڑا؟ تو وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود یہاں کے جنگلات محفوظ ہیں اور نہ ہی جنگلی حیات۔ اگر حکومت اعلانات پر سنجیدگی سے عمل نہیں کرتی تو پھر بامرِ مجبوری غیرسرکاری فلاحی ادارے قائم ہوں گے اور قبائلی اشر اور جرگوں کے ذریعے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھیں گے۔
تبصرے (9) بند ہیں