• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نور مقدم کیس: مرکزی ملزم کی ذہنی صحت کی جانچ کیلئے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا مطالبہ

شائع December 1, 2021
درخواست گزار نے مزید کہا کہ نور مقدم کیس آگےبڑھانے کے لیے ہمیں بھی میڈیکل بورڈ بنانے کی ضرورت ہے— فائل فوٹو:ڈان نیوز
درخواست گزار نے مزید کہا کہ نور مقدم کیس آگےبڑھانے کے لیے ہمیں بھی میڈیکل بورڈ بنانے کی ضرورت ہے— فائل فوٹو:ڈان نیوز

نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے اسلام ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ ان کے مؤکل کی ذہنی صحت کی جانچ کے لیے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔

ایڈووکیٹ سکندر ذوالقرنین سلیم کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’ظاہر جعفر ذہنی بیماری کا شکار ہیں اس لیے مقامی و بین الاقوامی قوانین کی سربراہی میں بنائے گئے میڈیکل بورڈ کے ذریعے ان کی بیماری کا تعین کرنا لازمی ہے‘۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع

رواں سال 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

14 اکتوبر کو عدالت نے 11 ملزمان کے ہمراہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر پر فرد جرم عائد کی تھی جس کے بعد مقدمے کے باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہوا تھا، ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، گھر میں کام کرنے والے ملازمین (چوکیدار افتخار، مالی جان محمد، اور خانسامہ جمیل) شامل تھے۔

جن ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی ان میں تھیراپی ورک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طاہر ظہور اور ان کے ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور سمر عباس بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر بدستور وکالت نامے پر دستخط سے انکاری

آج سماعت کے دوران ملزم کے وکیل کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 14 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ملزم ظاہر جعفر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی ’لیکن انہوں نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا، کیونکہ وہ عدالتی کارروائی سمجھنے سے قاصر تھے، حالانکہ 14 اکتوبر کو سنائے جانے والے عدالتی احکامات واضح تھے‘۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’ملزم ظاہری طور پر عدالت میں موجود تھے لیکن ان کا ذہن یہاں موجود نہیں تھا، جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب نیوز چینلز پر نشر کیا گیا تھا اور اس وقت اس معزز عدالت نے انہیں واپس جیل بھیج دیا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ 3 نومبر کو سماعت کے دوران ملزم نے جج عطا ربانی کے ساتھ غیر مناسب رویے کا مظاہرہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کو ہدایت دی کہ ملزم کو جیل لے جایا جائے، ویڈیو فوٹیج میں دیکھا گیا کہ پولیس افسران انہیں عدالت سے کھینچتے ہوئے لے کر جارہے ہیں۔

جج نے تحریری حکم نامے میں ظاہر جعفر کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے اب یہ رویہ اختیار کیا تو عدالت میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ظاہر کو 10 نومبر کو ایک بار پھر سوال جواب کے دوران عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے پر عدالت سے باہر بھیج دیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’ظاہر کرونک کا مریض ہے اور منشیات کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہے جبکہ 20 جولائی کو گرفتاری کے وقت بھی ان کی یہی حالت تھی‘۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کا پھر وکالت نامے پر دستخط سے انکار

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اور تحقیقاتی ادارے ظاہر کی دماغی حالت جاننےمیں ناکام رہے یا نور کے والد کے اثرورسوخ کی وجہ سے وہ ریکارڈ میں شامل کرنے کے بجائے ’اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں‘۔

درخواست گزار نے کہا کہ ’نور مقدم کے والد سابق سفارتکار ہیں اور طاقتور افراد کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات ہیں‘۔

درخواست میں عدالتوں کے غیرجانبدار ہونے کے تصور کو نمایاں کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ظاہر کی ذہنی حالت کا جائزہ لینے کے بعد ٹرائل کورٹ نے کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 34 کے تحت کارروائی کو آگے بڑھانے کے بجائے مقدمہ سننا شروع کیا اور ظاہر کی غیرموجودگی میں شہادتیں لیں، جو سی آر پی سی کی دفعات کی خلاف ورزی ہے اور ٹرائل کو مشکوک بناتی ہیں۔

انہوں نے حوالہ دیا کہ اعلیٰ عدلیہ نے ایسے کئی فیصلے جاری کیے جس میں کہا گیا کہ اگر ملزم کا ذہنی توازن خراب ہو یا ملزم کسی بیماری کا شکار ہوتو ان کے لیے ایک میڈیکل بورڈ قائم کیا جائے گا۔

درخواست گزار نے مزید کہا کہ نور مقدم کیس آگے بڑھانے کے لیے ہمیں بھی میڈیکل بورڈ بنانے کی ضرورت ہے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ انصاف کے مفاد میں ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی صحت کی تعین کے لیے ایک بااختیار اور مجاز میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

آج سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا نے ملزمان کے ڈی این اے کے نمونے لینے والے استغاثہ کے گواہ ڈاکٹر انعم اور ڈاکٹر حماد سے جرح مکمل کی جب کہ شکایت کنندہ کا بیان قلمبند اور شواہد اکٹھا کرنے والے اسسٹنٹ سب انسپکٹر زبیر مظہر کی گواہی ریکارڈ کی گئی۔

دریں اثنا پراسیکیوٹر حسن عباس نے اپنی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے عدالت سے نورمقدم کا پوسٹ مارٹم کرانے والی ڈاکٹر سارہ علی کو طلب کرنے کی استدعا کی، پراسیکیوٹر کی جانب سے ڈاکٹر سارہ کو اہم گواہ قرار دیے جانے کے بعد عدالت نے درخواست منظور کر لی۔

تھیراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے بھی ایک درخواست دائر کی جس میں عدالت سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ڈاکٹر کو طلب کرنے کی استدعا کی گئی جس نے تھیراپی ورکس کے ملازم امجد کا طبی معائنہ کیا تھا جو ظاہر کے ہاتھوں زخمی ہوا تھا۔

کیس کی سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ رواں سال 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

واقعے کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جاکر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا تھا۔

9 نومبر کو نور مقدم قتل کیس میں استغاثہ نے جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ اسلام آباد سیشن کورٹ میں جمع کرادیا جس میں رواں برس کے آغاز میں اسلام آباد کے ایک گھر میں خاتون کے قتل سے قبل کے واقعات کی ویڈیوز ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024