• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ابھی بیان حلفی نہیں دیکھا، اصل دستاویز جمع کرانے کیلئے وقت چاہیے، رانا شمیم

شائع November 30, 2021 اپ ڈیٹ December 1, 2021
عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کو پانچ روز کے اندر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی—تصویر: ڈان نیوز
عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کو پانچ روز کے اندر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی—تصویر: ڈان نیوز

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنا ہی بیانِ حلفی نہیں دیکھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات عائد کیے تھے۔

خیال رہے کہ ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی تہلکہ خیز رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں رانا محمد شمیم بذاتِ خود، مقامی اخبار کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمٰن، ایڈیٹر عامر غوری، اور سینئر صحافی انصار عباسی کے علاوہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی عدالت پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں جج نے استفسار کیا کہ پاکستان بار کونسل اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) سے کون آئے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری

نیشنل پریس کلب سیکریٹری انور رضا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پی ایف یو جی سے ناصر زیدی صاحب آئے ہیں جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ ناصر زیدی صاحب کی تو بہت قربانیاں ہیں۔

بعدازاں عدالت کے کہنے پر سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم روسٹرم پر آئے تو جج نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے شوکاز نوٹس کا جواب دیا ہے؟

جس پر رانا شمیم نے کہا کہ میرے خاندان میں حادثہ ہوا ہے، سماعت 12 تاریخ کے بعد مقرر کرلیں، رانا شمیم نے عدالت میں انکشاف کیا کہ ’میں نے ابھی تک اپنا بیان حلفی بھی نہیں دیکھا‘۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ابھی تک اپنا ہی بیان حلفی نہیں دیکھا؟ آپ کا بیان حلفی کسی مقصد کے لیے ہو گا، یا کسی اخبار کے لیے دیا تھا۔

رانا شمیم نے بتایا کہ میرا بیان حلفی سیلڈ تھا اور صرف خاندان کے پاس تھا، پتا نہیں وہ کس طرح لیک ہو گیا۔

مزید پڑھیں:جسٹس ثاقب نثار پر الزام، سابق جج رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ طلب

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ان کو بیان حلفی نہیں دیا؟ آپ نے بیان حلفی کسی مقصد کے لیے ہی دیا ہوگا، آپ تحریری جواب میں بتائیں گے کہ تین سال بعد بیان حلفی کس طرح آیا۔

عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کو پانچ روز کے اندر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔

رانا شمیم نے کہا میری ایک عرض ہے، 5 دسمبر کو بھابھی کا چہلم اور 12 کو بھائی کا چہلم ہے، تاہم عدالت نے ہدایت کی کہ یہ بھی سنجیدہ معاملہ ہے، آپ اپنے آپ کو جسٹیفائی کریں۔

اٹارنی جنرل جالد جاوید نے کہا کہ سابق چیف جج سے اصل بیان حلفی عدالت میں پیش کروایا جائے، شاید ان کے بیٹے نے بیان حلفی لیک کردیا ہو۔

رانا شمیم نے کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ یہیں پاکستان میں ہوتا ہے، میں نے ابھی تک بیان حلفی دیکھا ہی نہیں۔

جج نے رانا شمیم کو ہدایت کی کہ آپ اپنا اصل بیان حلفی عدالت میں جمع کرائیں، جس پر انہوں نے کہا کہ اس کے لیے آپ مجھے وقت دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ 10 سال پرانا کاغذ نہیں 10 نومبر کا کاغذ ہے، اس کیس میں آرٹیکل 19 اور 19 اے کا معاملہ ہے۔

اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا کا کردار دوسرے نمبر پر ہے، ذمہ داری رانا شمیم پر آتی ہے، استدعا ہے کہ عدالت رانا شمیم سے اصلی حلف نامہ منگوائے۔

یہ بھی پڑھیں:ثاقب نثار نے نواز شریف،مریم نواز کو عام انتخابات کے دوران جیل میں رکھنے سے متعلق رپورٹ مسترد کردی

رانا شمیم کا مزید کہنا تھا کہ میں نے ابھی کچھ نہیں دیکھا، میں گاؤں میں تھا، اخبار میں بیانِ حلفی کا پڑھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ دس سال پرانا دستاویز نہیں، ان کو 10 نومبر کا یاد نہیں؟ انہوں نے نہیں لکھا تو کس نے لکھا؟

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا چیف ایڈیٹر، ایڈیٹر اور صحافی نے اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، جس پر فریقین نے بتایا کہ انہوں نے جوابات جمع کروایے ہیں، عدالت نے انہیں اپنے جوابات عدالتی معاونین کو بھی مہیا کرنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاونین ہم نے اس لیے رکھے تاکہ عدالتی کارروائی شفاف انداز میں ہو، اب رانا شمیم کہہ رہے ہیں ان کو بیان حلفی کا معلوم ہی نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر بیان حلفی سیل تھا تو اس اخبار کے پاس کیسے پہنچا۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ 10 نومبر کو بیانِ حلفی نکلا ہے اور اب رانا شمیم کہہ رہے ہیں پچھلے ہفتے کا مجھے معلوم نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ رانا شمیم کو کتنا وقت چاہیے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر دن بہت اہم ہے۔

مزید پڑھیں:’پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں کو چوہدری نثار، نواز شریف نے شامل کروایا‘

عدالت نے ریمارکس دیے کہ میں توہین عدالت پر یقین ہی نہیں کرتا ججز کو بہت اونچا ہونا چاہیے، رانا شمیم کے آج کے بیان نے کیس کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے، سیاسی بیانیہ کو عدلیہ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

تاہم جج نے انہیں ہدایت کی کہ 7 دسمبر تک آپ اپنا جواب اور اصل بیان حلفی عدالت میں جمع کرائیں۔

رانا شمیم نے کہا کہ 7 دسمبر تک اصل بیان حلفی نہیں آسکے گا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ وہاں سے بھجوانے کا بندوبست کریں اٹارنی جنرل مدد کریں گے۔

رانا شمیم نے کہا کہ میری درخواست ہے 12 دسمبر کے بعد سماعت رکھی جائے تاہم جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اتنا زیادہ وقت نہیں دے سکتے 7 دسمبر تک سماعت ملتوی کرتے ہیں۔

میر شکیل الرحمٰن نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ 7 دسمبر کو نیب کا کیس ہے، پیش نہیں ہوا سکتا،جس پر جج نے انہیں حاضری سے استثنیٰ کی درخوست دینے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائی کورٹ فردوس عاشق اعوان کیس میں اصول طے کر چکی ہے، یہ مقدمہ توہینِ عدالت سے زیادہ میری عدالت کے احتساب اور جواب دہی کا کیس ہے، آزادی صحافت کے ساتھ ساتھ یہ مقدمہ عدلیہ کی خود مختاری کا بھی ہے۔

رانا شمیم کی تصدیق کے بعد خبر فائل کی، انصار عباسی

انصار عباسی نے سماعت کے بعد اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'رانا شمیم نے خبر فائل کرنے سے پہلے نہ صرف حلف نامے کی زبانی تصدیق کی بلکہ تحریری پیغام میں بھی حلف نامے کے متن کی تصدیق کی تھی۔'

دی نیوز کے سینئر رپورٹر انصار عباسی کے مطابق انہوں نے پورا حلف نامہ فون پر پڑھ کر حرف با حرف سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کو سنایا تھا جس کی انہوں نے تصدیق کی اور اس کے بعد خبر فائل کی گئی۔

رانا شمیم کے نواز شریف سے براہ راست رابطے ہیں، بیٹا

رانا شمیم کے صاحبزادے احمد حسن رانا نے حلف نامے کی خبر منظر عام پر آنے کے اگلے روز ہی نجی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے والد کے ایک عہدیدار اور وکیل کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور ان کی جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔

دوسری جانب اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں میزبان کاشف عباسی سے گفتگو کرتے ہوئے احمد حسن رانا نے بتایا تھا کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ لندن کے دورے کے دوران ان کے والد ثاقب نثار کے حوالے سے کوئی بیان دیں گے، انہوں نے اصلی بیانِ حلفی نہیں صرف اس کی تصویر دیکھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے اس بارے میں سب سے پہلے صحافی مطیع اللہ جان نے بتایا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بیان حلفی کو لندن میں کیوں نوٹرائز کروایا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا ’نو کمنٹس‘۔

انصار عباسی کی خبر اور عدالتی کارروائی

15 نومبر 2021 کو انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ میں صحافی انصار عباسی کی خبر شائع ہوئی جس کی سرخی تھی کہ ثاقب نثار نے 2018 انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کی ہدایت کی۔

انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں صحافی انصار عباسی کی تحقیقاتی رپورٹ میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے مبینہ حلف نامے میں کہا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے جج کو کرپشن ریفرنسز میں نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کی ہدایات دیں۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزارنے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

مزید پڑھیں: ثاقب نثار صاحب آج کل کہاں ہیں؟

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنا چاہیے، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کردیے تھے اور پہلی سماعت میں فریقین کو شو کاز نوٹسز جاری کر کے جواب طلب کرلیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024