خواتین پر تشدد کے خلاف مختلف ممالک میں ہزاروں افراد کا احتجاج
میکسکو سٹی: یورپ اور لاطینی امریکا میں ہزاروں مظاہرین نے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا جبکہ ترکی میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس فائر کی۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ہزاروں افراد نے میکسکو، میڈرڈ، پیرس، لندن اور بارسلونا میں ریلیاں نکالیں۔
اس کے علاوہ چلی، وینزویلا، بولیویا، یوراگوئے اور گوئٹے مالا میں بھی مظاہرین اکٹھے ہوئے۔
میکسکو جہاں یومیہ 10 خواتین قتل کردی جاتی ہیں، وہاں مظاہرین کے ایک بینر پر تحریر تھا کہ ’وہ مرتی نہیں، یہ انہیں مارتے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: تصادم، قدرتی آفات، کھانے کا بحران خواتین کےخلاف تشدد کو فروغ دے رہا ہے، اقوام متحدہ
امریکا کے ایک ریجنل کمیشن کے مطابق لاطینی امریکا اور کیریبیئن خطے میں سال 2020 کے دوران کم از کم 4 ہزار 91 خواتین قتل ہوئیں۔
میکسیکو سٹی میں اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب ہتھوڑے لے کر چلنے والے مظاہرین کی ایک چھوٹی سی تعداد نے پولیس اہلکاروں سے شیلڈ چھیننے کی کوشش کی، جنہوں نے انہیں دھویں کے بم سے پسپا کر دیا۔
استنبول میں بھی حالات اس وقت خراب ہوگئے جب انسداد فسادات پولیس نے سیکڑوں مظاہرین پر آنسو گیس فائر کی جو حکومت پر خواتین کے تحفظ کے بین الاقوامی معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے لیے زور دے رہے تھے۔
ترک حکومت نے اس سال کے آغاز میں تاریخی استنبول کنونشن کو اس بنیاد پر ترک کردیا تھا کہ اس کے صنفی مساوات کے اصول روایتی خاندانی اقدار کو مجروح کرتے ہیں، اس اقدام سے خواتین کے لیے مہم چلانے والے برہم ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس: خواتین پر تشدد، کم عمر میں شادیوں و جنسی جرائم میں اضافے کا خدشہ
اسپین، جہاں حکومت نے گھریلو تشدد کے خلاف لڑائی کو قومی ترجیح بنا لیا ہے وہاں بھی میڈرڈ اور بارسلونا کی سڑکوں پر ہزاروں افراد جامنی جھنڈے لے کر نکلے، اس کے علاوہ بھی دیگر شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔
مظاہرے میں شریک ایک خاتون اداکار کا کہنا تھا کہ ’عالمی سطح پر یہ اب بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے جسموں، زندگیوں اور فیصلوں کے خلاف پدرشاہی تشدد کو ختم کرنے کا انتہائی اہم وقت ہے، بہت سے افراد خواتین کے استحصال سے تنگ آچکے ہیں‘۔
ایک 50 سالہ سول سرونٹ ماریہ موران کا کہنا تھا کہ ’ہم اس جاری تشدد سے تھک چکے ہیں جو کئی اقسام کا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے اقدامات کا مطالبہ
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں جسم فروشی، قتل، استحصال اور ریپ کا خاتمہ ہو۔
یاد رہے کہ سال 2004 میں اسپین کی پارلیمان نے اکثریتی ووٹ کے ساتھ صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کے لیے پہلا یورپی قانون منظور کیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک خاتون کو اپنے کسی جاننے والے کے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔