کورونا وائرس کی اب تک کی 'بدترین' نئی قسم کے بارے میں کیا کچھ معلوم ہوچکا ہے؟
سائنسدانوں کی جانب سے کورونا وائرس کی نئی قسم بی 1.1.529 کے اثرات کو سمجھنے کے لیے کام کیا جارہا ہے جس کے 100 کیسز اب تک جنوبی افریقہ، ہانگ کانگ، اسرائیل اور بوٹسوانا میں دریافت ہوچکے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی اس نئی قسم میں بہت زیادہ غیرمعمولی میوٹیشنز ہوئی ہیں جو فکرمند کردینے والی ہیں کیونکہ اس سے ممکنہ طور پر وہ جسمانی مدافعتی ردعمل کے خلاف مزاحمت اور زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔
درحقیقت ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بھی نئی قسم جو مدافعتی ردعمل پر حملہ آور ہوسکتی ہو یا ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہو، وہ دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہوسکتی ہے۔
یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سوزن ہوپکنز نے بتایا کہ بی 1.1.529 کی آر ویلیو یا ری پروڈکشن نمبر اس وقت 2 ہے جس کا عندیہ جنوبی افریقی صوبے گوتھنگ میں ملا جہاں وہ پھیل رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2 آر ویلیو وائرس کے پھیلاؤ کا وہ نمبر ہے جو وبا کے آغاز سے اب تک ریکارڈ نہیں ہوا، اگر آر ویلیو 1 سے اوپر ہو تو کوئی وبا بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
اب تک کیا دریافت ہوچکا ہے؟
ڈائیگناسٹک لیبارٹریز کے ابتدائی تجزیوں سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم بہت تیزی سے جنوبی افریقی صوبے میں پھیل رہی ہے اور ممکنہ طور پر پہلے ہی جنوبی افریقہ کے دیگر 8 صوبوں تک پھیل چکی ہے۔
نیشنل انسٹیٹوٹ آف کمیونیکیبل ڈیزیز (این آئی سی ڈی)کی جانب سے جاری جنوبی افریقہ میں روزانہ کے کیسز کے اعدادوشمار میں 2465 نئے کیسز کو رپورٹ کیا گیا جو ایک دن قبل کے مقابلے میں لگ بھگ دگنا زیادہ ہیں۔
این آئی سی ڈی نے نئی لہر کو کورونا کی نئی قسم سے منسلک نہیں کیا مگر کچھ مقامی سائنسدانوں کے خیال میں اس کی وجہ یہی ہے۔
جنوبی افریقہ نے اس نئی قسم کے 100 کیسز کی تصدیق کی ہے اور خیال کیا جارہا تھا کہ گوتھنگ میں 90 فیصد نئے کیسز کے پیچھے بی 1.1.529 ہے جبکہ یہ قسم بوٹسوانا، ہانگ کانگ اور اسرائیل تک بھی پہنچ چکی ہے۔
ہانگ کانگ میں 2 افراد میں اس کی تصدیق ہوئی جن میں سے ایک جنوبی افریقہ سے آیا تھا اور اس نے اپنے ہوٹل کمرے کے برابر میں موجود فرد میں اسے منتقل کیا۔
دیگر اقسام سے موازنہ کیسے کریں؟
سنیئر سائنسدانوں نے 25 نومبر کی شام کو بی 1.1.529 کو وبا کے آغاز سے اب تک کورونا کی بدترین قسم قرار دیا، جس کے اسپائیک پروٹین میں 32 میوٹیشنز ہوئی ہیں۔
اسپائیک پروٹین وائرس کا وہ حصہ ہے جس کے خلاف بیشتر ویکسینز کو مدافعتی نظام کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
میوٹیشنز کی یہ تعداد ڈیلٹا قسم سے دگنا زیادہ ہیں اور اسپائیک پروٹین میں آنے والی تبدیلیوں سے وائرس کی خلیات کو متاثر کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ مدافعتی خلیات کے لیے جراثیم پر حملہ آور ہونا بھی مشکل ہوسکتا ہے۔
ڈیلٹا قسم کو سب سے پہلے بھارت میں 2020 کے آخر میں دریافت کیا گیا تھا جو اب دنیا بھر میں بالادست قسم ہے اور اس کے باعث کیسز اور اموات کی شرح میں اضافہ ہوا۔
دیگر اقسام بشمول ایلفا (برطانیہ میں سب سے پہلے سامنے آئی)، بیٹا (جنوبی افریقہ میں سامنے آئی) اور گیما (برازیل میں پہلے دریافت ہوئی)، سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی اقسام اپنے وجود کے لیے خود کو بدلتی رہتی ہیں۔
کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، مگر سائنسدانوں کی جانب سے اس نئی قسم کو سمجھنے کے لیے مسلسل کام کیا جارہا ہے۔
چونکہ یہ حال ہی میں منظرعام پر آئی ہے تو سائنسدانوں کے پاس اس کے متعدی ہونے یا ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ آور ہونے کے حوالے سے شواہد نہیں۔
مگر ایسے خدشات موجود ہیں کہ اگر اس نئی قسم کو پھیلنے کا موقع ملا تو یہ دنیا کے مختلف خطوں میں نئی پابندیوں کے نفاذ کا باعث بن سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا ردعمل
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بی 1.1.529 کے حوالے سے ماہرین کا اجلاس جنیوا میں 26 نومبر کو منتعقد کیا جارہا ہے جس میں اس نئی قسم کا تجزیہ کیا جائے گا اور اسے ویرینٹ آف انٹرسٹ یا کنسرن قرار دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
عالمی ادارے کے ترجمان نے بتایا کہ اس مرحلے پر مختلف ممالک کی جانب سے سفری پابندیاں عائد کی جارہی ہیں، ڈبلیو ایچ او کا مشورہ ہے کہ ممالک کی جانب سے اس طرح کے اقدامات کے حوالے سے سائنسی نکتہ نظر کو اپنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس نئی قسم کے متعدی ہونے اور اس کے خلاف ویکسینز کی افادیت کے تعین میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، اب تک اس قسم کے 100 سیکونس رپورٹ ہوچکے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ لوگوں کو فیس ماسک کا استعمال ہر ممکن حد تک کرنا چاہیے، بڑے اجتماع سے گریز، چار دیواری کے اندر ہوا کی اچھی نکاسی اور ہاتھوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔