سینیٹ کمیٹی نے اعضا کی پیوندکاری کا بل منظور کرلیا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت سروسز نے متفقہ طور پر انسانی اعضا اور ٹیشوز کی پیوندکاری کا (ترمیمی) بل 2021 منظور کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترمیمی بل کے مطابق کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) کے لیے رجسٹریشن کے وقت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے حکام لوگوں سے پوچھیں گے کہ کیا وہ اپنے اعضا عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔
اگر عطیہ کرنے والا شخص اثبات میں جواب دیتا ہے تو اس کے شناختی کارڈ پر سرخ نشان ڈال دیا جائے گا۔
یہ بل بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی سینیٹر ثنا جمالی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیٹر سیمیں ایزدی کی جانب سے نجی ارکان کے بل کے طور پر 27 ستمبر کو ایوان بالا میں پیش کیا گیا تھا جسے بعد ازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: آسٹریلیا میں مردہ دل کی کامیاب ٹرانسپلانٹیشن
اس بل پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے چیئرمین محمد ہمایوں مہمند کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسا ایک بھی ادارہ نہیں جو انسانی عضو کے عطیہ کنندگان یا وصول کنندگان کو رجسٹر کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی اعضا کی عطیات ایک مثبت عمل ہے اور اس کا غلط استعمال بند ہونا چاہیے۔
ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (ہوٹا) کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 20 رجسٹرڈ ادارے ہیں جو اعضا کی ٹرانسپلانٹ کا کام کر رہے ہیں لیکن بپلک سیکٹر کے ادارے مشکل سے ہی ٹرانسپلانٹ کر رہے ہیں۔
کمیٹی کے اراکین نے متفقہ طور پر بل منظور کرتے ہوئے اسے ووٹنگ کے لیے ایوان بالا کے حوالے کردیا۔
سینیٹر ثنا جمالی نے ڈان کو بتایا کہ بل میں تجویز دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اعضا عطیہ کرنا چاہتا ہے تو انہیں نادرا سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ ظاہر کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے پہلے ٹرانسپلانٹ سینٹر کا افتتاح
انہوں نے کہا کہ ’سی این آئی سی پر سرخ نشان لگانے کا مقصد لوگوں اور متعلقہ حکام کو آگاہ کرنا ہے کہ شناختی کارڈ کا حامل شخص عضو عطیہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے‘۔
سینیٹر نے کہا کہ ’وہ افراد جو ہسپتالوں میں انتقال کر جائیں گے ان کے اعضا نکالے جاسکتے ہیں یا متعلقہ حکام کو مطلع کیا جاسکتا ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں ثنا جمالی کا کہنا تھا کہ شہریوں کے پاس نادرا کی فہرست کے ذریعے عضو عطیہ یا شامل کرنے کا انتخاب ہوگا۔
انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اہمیت کا حامل ہونے کے سبب بل باآسانی پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا۔
پاکستان میں بیشتر نشئی افراد سگریٹ چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن ناکام ہیں، سروے
دوسری جانب ملک کے بڑے شہروں میں ایک سروے کیا گیا جس میں انکشاف ہوا کہ سگریٹ نوشی کرنے والے کم و بیش 86 فیصد پاکستانی اس سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں لیکن بارہاں کوششوں کے باوجود بھی ناکام ہیں۔
ان میں سے 95 فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ وہ یہ نقصاندہ نشہ چھوڑنے کے لیے متبادل کی طرف جارہے ہیں۔
اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں ایسوسی ایشن فار اسموکنگ الٹرنیٹیوز پاکستان (اے ایس اے پی) کے بانی و سی ای او نے میڈیا سے تفصیلات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے سگریٹ پینے والوں کے لیے سگریٹ چھوڑنا ہی بہترین انتخاب ہے لیکن بے شمار اسموکرز سگریٹ نہیں چھوڑ پاتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ افراد جو سگریٹ نہیں چھوڑ سکتے انہیں چاہیے کہ ای-سگریٹ یا گرم تمباکو جیسے محفوظ متبادل کی طرف بڑھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سیگریٹ نوشی کا ایک اور نقصان سامنے آگیا
اے ایس اے پی کی جانب سے کیے گئے سروے میں 600 سگریٹ نوشی کرنے والوں اور متبادل استعمال کرنے والوں کو شامل کیا گیا تاکہ ملک میں سگریٹ کے متبادل کے بارے میں لوگوں کے تصور سے متعلق آگاہی حاصل کی جاسکے۔
یہ تحقیق نومبر کے آغاز میں شروع ہونے والی مہم کا جز ہے جس کا مقصد 10 لاکھ پاکستانیوں کو سگریٹ کے نشے سے آزاد کروانا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’اس سے سگریٹ کا نشہ کرنے والے افراد کی تعداد کم کرنے میں مدد ملے گی‘۔
سروے میں شرکا سے سگریٹ چھوڑنے کی وجوہات پوچھی گئیں اور ان تمام نے کہا کہ بہتر صحت اس کی اہم وجہ ہے اور 98 فیصد شرکا کا کہنا تھا کہ سگریٹ چھوڑنے سے ان کی صحت بہتر ہوئی ہے۔