• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پاکستان آخر کب تک کرپٹو سے کتراتا رہے گا؟

شائع November 25, 2021

2015ء میں اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے 'اسپیس ایکٹ' پر دستخط ثبت کرکے خلا میں انسان کے لیے ممکنہ مواقع کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی تھی۔

اس نئی امریکی قانون سازی کے تحت نجی کمپنیوں کو خلا میں کام اور وہاں سے ثمرات کے حصول کا مکمل اختیار مل گیا، یعنی اب اگر یہ کمپنیاں کسی سیارے یا سیارچے پر کان کنی کرتی ہیں یا کوئی کالونی بناتی ہیں تو اس سے حاصل تمام مالی فوائد اور پیسہ ان کا ہوگا اور اس پر ریاستی ٹیکس کے علاوہ اور کوئی ادائیگی نہیں ہوگی۔

اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ فوری طور پر اسپیس ایکس اور بلیو اوریجن نامی کمپنیوں کو ہوا۔ تاہم اس قانون نے دنیا بھر میں خلائی دوڑ کی جہت ہی تبدیل کردی۔ جو خلائی دوڑ کبھی امریکا اور روس کے درمیان مسابقت کا موجب تھی، وہ اب ایلون مسک اور ایمازون کے مالک جیف بیزوس کے درمیان جاری ہے۔ یورپی کمپنیاں بھی اس ریس میں شامل ہونے کی تیاری کر رہی ہیں لیکن پہل کی وجہ سے امریکی کمپنیوں کو اپنے مدِمقابل کمپنیوں پر سبقت حاصل ہے۔ یوں سمجھیے کہ اس ایک قانون سازی کی وجہ سے خلا کو صنعت کا درجہ مل گیا۔

جیف بیزوس — اے ایف پی فائل فوٹو
جیف بیزوس — اے ایف پی فائل فوٹو

دنیا کے تمام بڑے تعلیمی اداروں نے خلا کے مضمون کو ایک نئے انداز سے پڑھانا شروع کردیا، اسپیس انجینیئرنگ کا جو شعبہ صرف خلابازوں اور ناسا جیسے سرکاری اداروں تک محدود تھا، اس کے دروازے عام نوجوانوں کے لیے وا ہوگئے۔ اسی کے ساتھ پھر نئے سوالوں نے بھی جنم لینا شروع کیا کہ آخر انٹرنیٹ سے لے کر موبائل ٹیکنالوجی خلا میں کیسے کام کرے گی؟ خلا میں معیشت کیسی ہوگی؟ اس معیشت کو چلانے والا کون ہوگا؟ خلائی جہاز کا کرایہ عام طیارے کے برابر کیسے لایا جائے گا؟ بڑے بڑے ڈرلرز مریخ کی سطح پر کیسے کام کریں گے؟ گویا ہر وہ چیز جو زمین میں پر وجود رکھتی ہے وہ خلا تک کیسے پہنچے گی؟

ان سارے سوالوں کے سائنسی جوابات دینے کے مقصد سے دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں محققین تحقیق کررہے ہیں۔ آئندہ نسل کو ان سوالوں کی کھوج میں مدد فراہم کرنے کی غرض سے نت نئے کورس ترتیب دیے جارہے ہیں۔

تو جناب یہ سب فقط ایک قانون میں تبدیلی سے ممکن ہوسکا جسے امریکی قانون سازوں نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس قانون نے امریکا کی دنیا میں نئی بالادستی کی بنیاد رکھی۔

گزشتہ دہائی کے دوران امریکا اور چین کے مابین جاری معاشی جنگ میں ناتواں دانشور اس بات پر خوش ہوتے رہے کہ امریکا یہ جنگ ہار رہا ہے، حتیٰ کہ خود امریکی دانشور بھی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ جنگ ہار رہے ہیں اور اب سیلیکون ویلی کی جگہ چینی اور بھارتی کمپنیاں تیزی سے یہ میدان اپنے نام کر رہی ہیں تبھی ایک دیوانے نے اسی ویلی میں اسپیس ایکس نامی کمپنی بنائی اور ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی جس نے پرانی سیلیکون ویلی میں تبدیلی کی بنیاد ڈال دی۔

اسپیس ایکس کے مالک اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک—رائٹرز
اسپیس ایکس کے مالک اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک—رائٹرز

خیر یہ باتیں تو سات سمندر پار امریکا کی ہیں، فرض کیجیے کہ اگر یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا تو کیا ہوتا؟

سب سے پہلے تو غیر نظریاتی سیاستدان ایسی قانون سازی کی جرأت ہی نہ کرتے۔ اس کی وجہ یقیناً ان کی کم علمی یا کم فہمی نہیں بلکہ یہ ڈر ہوتا کہ کہیں کوئی اسے کسی سازش سے نہ جوڑ دے۔

چونکہ قانون سازی کا معاملہ ہوتا تو یقیناً کوئی عظیم لیڈر سڑکوں پر اس کے خلاف دھرنا دیتا بھی نظر آتا۔ وہ عوام کو یہ بتاتے پھرتے کہ انہوں نے نظریاتی سرحدوں کے بعد چاند اور مریخ کو بھی بیچ دیا ہے۔ وہ قوم کو احساس دلاتے کے بے آباد اور ہزاروں سالوں کی مسافت پر موجود یہ سیارے ان شاہینوں کے تھے جن کی کمند ابھی تیار نہیں اور پلاٹنگ بھی باقی ہے۔ یہ احساس ہی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیتا کہ اس عمل اور قانون سازی سے ملکِ خداداد کو کیسا عظیم نقصان پہنچا ہے اور پھر سزا واحد حل ٹھہرتی۔

عدالتوں میں انصاف کا بول بالا ہوتا۔ خاندان کو عدالتوں میں بلا کر انصاف کا سرکس دکھایا جاتا۔ تمام سیاستدان احتساب کے شکنجے میں ہوتے اور ان کے حامی و ناصر منہ چھپاتے پھرتے۔ بلیو اوریجن اور اسپیس ایکس کے مالکان جیف بیزوس اور ایلون مسک کو جیل میں ڈال دیا جاتا اور یوں ایک نئی نوعیت کا انقلاب برپا ہوتا جو امریکا کے خلائی انقلاب سے بہت مختلف ہوتا۔

نظریاتی امین اور ان کے ساتھیوں کے سر کڑاہی میں رہتے لیکن 99 فیصد کو کوئی موقع ہی نہ ملتا۔ کوئی غریب ٹام ملر مٹی کے ماڈل بناتے بناتے فیلکن راکٹ نہ بناتا۔ تمام شاہین آنکھوں میں یہ خواب لیے ہی مرجاتے کہ وہ ایک دن ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔ بس ہر بار یہی کہتے کہ ہمارا شاعر تو ہمیں 100 سال پہلے ہی بتاچکے تھے کہ اصل صنعت خلا میں ہی ہے جس کا انہوں نے ایک شعر میں ذکر بھی کیا تھا۔

یقیناً پاکستان میں ابھی قانون سازی اس نہج پر نہیں پہنچی کہ ایسے فیصلے ہوسکیں جن کی بنیاد پر نئی صنعتیں قائم ہوں اور یہاں مسک اور بیزوس جیسے دیوانے بھی نہیں جو ناممکن کو ممکن بنا دیں۔ تاہم بہت کچھ ایسا ہے جس سے متعلق پاکستانی سیاستدان ان حالات میں بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

دنیا میں معاشی انقلاب برپا کرتی کرپٹو کی صنعت کو ہی لیجیے۔ بھارت جیسے ملک نے بھی اس پر پابندی ہٹا دی اور اب اس حوالے سے قانون سازی کی طرف جا رہا ہے، چین اور برطانیہ اپنی ڈیجیٹیل کرنسیوں کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔

کرپٹو کی صنعت دنیا میں معاشی انقلاب برپا کر رہی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
کرپٹو کی صنعت دنیا میں معاشی انقلاب برپا کر رہی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

تیزی سے بدلتی ڈی فائی کرپٹو (Decentralized finance) بینکوں سے زیادہ منافع بخش ذرائع بن رہے ہیں لیکن پھر بھی ہم اس سے لاعلم ہیں۔ پاکستان میں کرپٹو ایک ہی شخص تک محدود ہے جو لوگوں سے پیسے لے کر انہیں ڈے ٹریڈنگ سکھاتا ہے اور اپنے ایک کوائن کی رجسٹریشن کے لیے مہم کرتا پایا جاتا ہے۔

حکومت یا عوام نے اس کرپٹو کو اس شخص کی نظر سے ہی دیکھا ہے لیکن اس کے اصل استعمال یا جس کی وجہ سے اس کی مالی اہمیت ہے، اس پر توجہ ہی مرکوز نہیں کی گئی، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے یا نہ لگانے پر بھی بحث نہیں ہوئی۔ ایک جدید ترین ٹیکنالوجی سے دُور رہ کر آنکھیں بند کرنے کی مثال پاکستان میں 7 دہائیوں سے قائم ہے لیکن اسے بدلنے کی ضرورت ہے نہیں تو اس معیشت کے مسائل کو کبھی حل نہیں کرسکیں گے۔

نمر احمد

لکھاری گزشتہ 14 برس سے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں۔ معیشت اور ٹیکنالوجی ان کی خصوصی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: nimerahmadkhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Asif Shahid Nov 25, 2021 08:18pm
نمر احمد باصلاحیت نوجوان صحافی ہیں ، خبر کے ہر زاویئے سے ان کی آگہی کبھی کبھی حیران کر دیتی ہے، معیشت اور ٹیکنالوجی میں بھی ان کی معلومات معاصر صحافی دوستوں سے بہت آگے ہیں ، بلاگنگ کی دنیا میں ابتدا اچھی اور خوشگوار ہے

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024