• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

عدلیہ کو اپنے کردار سے آزادی اور خود مختاری بحال کرنی ہوگی، مولانا فضل الرحمٰن

شائع November 23, 2021
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سمندر پارپاکستانیوں کو پارلیمان میں نمائندگی دیں گے—فوٹو:ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سمندر پارپاکستانیوں کو پارلیمان میں نمائندگی دیں گے—فوٹو:ڈان نیوز

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف 6 دسمبر کو انتہائی اہم فیصلے کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ عدلیہ کو اپنی آزادی اور خود مختاری اپنے کردار سے بحال کرنی ہوگی۔

اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا کو آگاہ کرتےہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا، جس میں تمام جماعتوں کے سربراہان اور ان کے نمائندوں نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: کل کی قانون سازی نےاسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں گرفت مضبوط کر دی، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ 17 نومبر کو منعقدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو مسترد کردیا گیا جہاں چند گھنٹوں میں 33 قوانین منظور کرنا پارلیمانی اقدار کے ساتھ ایک بڑا مذاق تھا۔

انہوں نے کہا کہ سب سےبڑا مذاق شاید پارلیمان کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ دو ایوانی مقننہ میں ہمیشہ ایک قانون کسی ایک ایوان میں پیش کیا جاتا ہے، وہاں سے وہ قبول یا مسترد ہوتا ہےپھر دوسرےایوان میں جاتا ہے پھر وہاں مسترد ہوتو مشترکہ ایوان میں پیش کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اجلاس میں ایسے قوانین منظور کیے گئے جو اس سےپہلے کسی ایک ایوان میں پیش نہیں کیے گئے تھے، یہ ایوان کے آرٹیکل 70 کی خلاف ورزی ہے اور یہ جعلی قسم کی قانون سازی ہے۔

'الیکشن کمیشن کے اختیارات پر وار کیا گیا'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ موجودہ قانون سازی کے ذریعے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر وار کیا گیا ہے، قوم کا مطالبہ ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا ہے لیکن جس طرح قانون سازی کی گئی ہے، اس کے اختیارات پر قدغن لگانا، آئین کےتحت اس کےدیے ہوئے اختیارات کو سمیٹنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آئین کے متصادم قانون سازی ہے کیونکہ آئین الیکشن کمیشن کے خود مختاری اور اس کی آزادی کی حدود متعین کرتا ہے، اس قانون سازی کا اس سےتصادم ہے، اس لیے اس قانون سازی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’اسٹیبلشمنٹ مغربی دنیا کی خوشنودی کیلئے انتخابی نتائج کنٹرول میں رکھتی ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ اس پر آئینی اور قانونی ماہرین بھی متفق ہیں اور الیکشن کمیشن بھی ردعمل دے چکا ہے۔

پی ڈی ایم کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے، اس جعلی حکومت نے جس طرح نوجوانوں سے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کیا، ایک کروڑ نوکریاں کیا دیں گے کہ 50 لاکھ کے قریب لوگوں کو بے روزگار کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 50 لاکھ گھروں کے نعرے کے ساتھ قوم کو دھوکا دیا گیا، 50 لاکھ گھر کیا دیں گے تجاوزات کے نام پر تقریباً 50 لاکھ گھر گرا دیے گئے ہیں۔

'سمندر پار پاکستانیوں کو پارلیمان میں نمائندگی دیں گے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسی طرح سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کی بات جس بھونڈے انداز میں کی ہے، ہم اپنے سمندر پار پاکستانی بھائیوں کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس جعلی اور دھاندلی کی پیداوار حکومت کے اس دھوکے پر مت آنا، ہم سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان کا اثاثہ سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کے لیے ہم خود اس پر آئین اور قانون کی روشنی میں کام کریں گے اور اس کا طریقہ کار متعین کریں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی اتحادی جماعتوں کو گردن پر بوٹ رکھ کر مجبور کیا جا رہا ہے، فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ حکومت کا متعین کردہ طریقہ کار دھاندلی کی ایک نئی راہ ہموار کرنی ہے، منظور کردہ قانون جس میں ای وی ایم مشین جس کو دنیا مسترد کر رہی ہے اور ہم اس کے ذریعے ووٹ کی بات کر رہے ہیں، ہم اس پری پول دھاندلی کو مسترد کرتے ہیں۔

'ججوں کے بیانات سے عدلیہ کی آزادی آشکار ہوئی'

صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ سیاسی زعما، پارٹی قیادت بالخصوص نواز شریف اور ان کی جماعت کے اہم شخصیات ماضی میں جو عدالتی فیصلے آئے اور جن کے ذریعے ان کو نااہل قرار دیا گیا، خود عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ ہوں، ان کے محترم جج صاحبان کے ماضی کے وہ بیانات اور حال ہی میں گلگت بلتستان سے رانا شمیم کا بیان حلفی اور اب جو ثاقب نثار کا آڈیو آچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کا احترام بھی کریں، ہم جج صاحبان کو اپنی آنکھوں پر بھی بٹھائیں لیکن اپنے گھر کی گواہیاں، اس حوالے سے جو عدالت پر سوالات اٹھے ہیں، ان کی آزادی اور خود مختاری پر جو سوالات اٹھےہیں، ہم بڑے دکھی دل کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ اپنے اس مقام کو انہوں نے اپنے کردار سے دوبارہ حاصل کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اعتماد ان کو اپنے کردار پر بحال کرنا ہوگا، اب بہت مشکل ہوگیا ہے کہ جو سازشیں ماضی میں ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف آشکارا ہوئی ہیں، چاہے اس کا تعلق نواز شریف یا ان کی جماعت کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوئے ہوں یا دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کے حوالے سے ہوں وہ ملک کے خلاف سازش ہے کسی فرد کے خلاف نہیں، یہ جمہوری نظام کے خلاف سازش ہوئی ہے، جس کا خمیازہ آج پاکستان کے عوام بے روزگاری، مہنگائی اور معاشی تباہی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

'اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے وابستہ کیا جارہا ہے'

انہوں نے کہا کہ آج اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ وابستہ کیا جا رہا ہے،جیسے اس کو آئی ایم ایف کی برانچ بنایا جا رہا ہو اور اسٹیٹ بینک کی کسی فیصلے کو پاکستان کا کوئی شہری چیلنج اور تنقید نہیں کرسکے گا، اس کے اختیارات سلب کردیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ادارے حقائق کو سمجھیں اور اپنے کردار کا جائزہ لیں، فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے اختیارات کو بھی ایک عالمی ادارے کے حوالے کردیے جائیں گے، اس طرح پاکستان کی معیشت کو گروی رکھا جارہا ہے۔

'6 دسمبر کو انتہائی اہم اعلانات کریں گے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم ان حالات کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور تفصیلی طور پر مباحثہ ہوا لہٰذا اب پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس 6 دسمبر کو اسلام آباد میں دوبارہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں اپنی پارٹی کی بااختیار باڈیز سےمشاورت سے کچھ تجاویز مرتب کریں گی، وہ تجاویز 6 دسمبر کے اجلاس میں سربراہان کے سامنے پیش کی جائیں گی اور پھر حتمی پالیسی اور انتہائی اہم اعلانات کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ دور کی بات نہیں ہے، ہم انتہائی اہمیت کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور پاکستان کے عوام کو اس جبر سے نجات دلانے کے لیے حتمی اور آخری فیصلے کی طرف بڑھیں گے۔

صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ جب تک یہ حکومت ہے عوام کے لیے مہنگائی ختم نہیں ہوسکتی، اس لیے حکومت کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے بہت خوب صورت تدبیر اور حکمت عملی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں منظور شدہ قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم ضرور جائیں گے لیکن اس قسم کے شواہد جب اپنے گھر سے اس کے اوپر گواہی دی گئی ہے تو اپنے خاندان اور گھر سے جو شہادتیں ہیں وہ ان کی پوزیشن کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور ہم اس کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلے عدالت کو کرنا ہے، انہوں نے خود جائزہ لینا ہے کہ ثاقب نثار صاحب کی طرح اوپر سے دباؤ کے تحت فیصلے کررہے ہیں یا آئین و قانون کے تحت انصاف پر فیصلے کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024