• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا پاکستان سے جبری گمشدگیاں ختم کرنے کا مطالبہ

شائع November 23, 2021
گروپ نے اس طرح کے جبری گمشدگیوں سے منسلک اہلکاروں پر بھی مقدمہ چلانے کی اپیل کی— فوٹو: رائٹرز
گروپ نے اس طرح کے جبری گمشدگیوں سے منسلک اہلکاروں پر بھی مقدمہ چلانے کی اپیل کی— فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ مشتبہ عسکریت پسندوں کو کئی برس تک بغیر مقدمہ چلائے جبری طور پر لاپتا کرنا بند کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’زندہ بھوت‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں انسانی حقوق گروپ نے گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو اپنے زیر حراست رشتہ داروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں درپیش مشکلات کو بیان کیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'لاپتا افراد کمیشن نے جبری گمشدگی کے 71 فیصد کیسز نمٹا دیے'

رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک سیکڑوں پاکستانی حقوق کے محافظ، کارکن، طلبہ اور صحافی لاپتا ہو چکے ہیں۔

ایسے ہی حراست میں لیے گئے افراد میں ادریس خٹک بھی تھے جو 2019 میں ملک کے شمال مغرب میں سفر کے دوران لاپتا ہو گئے تھے۔

کئی ہفتوں بعد حکام نے تسلیم کیا کہ وہ غداری کے غیر معین الزامات کے تحت حراست میں لیے گئے۔

ادریس خٹک لاپتا ہونے سے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے لیے کام کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے تعین میں لاپتا افراد کمیشن ناکام رہا، آئی سی جے

جبری گمشدگی ایک ظالمانہ عمل ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں سیکڑوں خاندانوں کو ناقابل تلافی تکلیف دی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے قائم مقام جنوبی ایشیا کے محقق ریحاب ماہور نے کہا کہ اپنے پیاروں کو کھونے اور ان کے ٹھکانے یا حفاظت کے بارے میں طویل عرصے تک لاعلم رہنے والے خاندان اور دیگر افراد کے لیے خرابی صحت اور مالی مسائل کا باعث بھی بنتا ہے۔

انہوں نے زیر حراست افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تمام لاپتا افراد کے بارے میں ان کے اہلخانہ کو آگاہ کرے۔

گروپ نے اس طرح کے جبری گمشدگیوں سے منسلک اہلکاروں پر بھی مقدمہ چلانے کی اپیل کی۔

حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جو ایسے الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کرتی آئی ہے۔

مزید پڑھیں: لاپتا افراد سے متعلق قانون سازی ناگزیر ہے، شیریں مزاری

اس ضمن میں مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر لاپتا افراد حالیہ برسوں میں عسکریت پسند گروپوں میں شمولیت کے لیے افغانستان گئے تھے۔

اگرچہ عدالت کی منظوری کے بغیر حراست میں لینے کی ممانعت ہے تاہم حکام نے نجی طور پر اعتراف کیا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں حراستی مراکز میں غیر متعینہ تعداد میں مشتبہ افراد کو روک رہی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024