سندھ ہائیکورٹ میں قواعد کی ’مکمل تعمیل‘ کے بغیر بھرتیوں کی وضاحت طلب
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ میں 2017 سے قواعد میں نرمی کر کے پیرا لیگل اسٹاف کی بھرتیوں کی وضاحت کے لیے رجسٹرار ہائی کورٹ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینج نے سماعت کی اور ریماکس دیے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ پیرا لیگل اسٹاف کا تقرر قواعد (سندھ جوڈیشل سروس رولز) کی مکمل تعمیل کے بغیر کیا گیا۔
بینچ نے غلام سرور قریشی کی درخواست پر سماعت کی اور درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ خواجہ شمس الاسلام پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ سندھ ہائی کورٹ میں 2017 سے سول ججز اور صوبے بھر کی ماتحت عدالتوں میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کا تقرر غیر قانونی، غیر آئینی ہے اور ان کی تعیناتی قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔
عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار عبدالرزاق کو 2 دسمبر کو پیرا لیگل اسٹاف کی تقرر کے ریکارڈ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 2017 کے بعد سے مختلف مراحل کے تحت عہدوں پر بھرتیوں کی تعداد بتائیں اور منظوری دینے والے حکام کی نشاندہی کریں۔
مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ نے 1500 کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کی درخواستیں خارج کردیں
عدالت عظمیٰ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے الزامات کی کاپی سیل کور میں فراہم کی گئی لیکن درخواست گزار کے وکیل کو نقول نہیں دی گئی۔
بینچ نے کہا کہ رپورٹ کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک سرسری نظر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پیرا لیگل اسٹاف کا تقرر قواعد کی مکمل تعمیل کے بغیر کیا گیا اور متعلقہ ضلعی ججوں کی درخواست پر کچھ معاملات میں ڈومیسائل کی شرط میں نرمی کی گئی۔
سپریم کورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ رپورٹ میں مختلف ضلعی ججوں کی جانب سے قواعد میں نرمی کے لیے لکھے گئے خطوط کی کاپیاں شامل ہیں جن پر جولائی 2017 کی ایک ہی تاریخ درج ہے۔
ابتدائی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہائی کورٹ میں کلرکس کے عہدوں کے لیے عمر کی حد میں 5 سال 6 ماہ کی نرمی کی گئی تھی جبکہ ایک کیس میں دیکھا گیا کہ 6 افراد ذوالفقار شیخ کے عزیز و اقارب میں سے ہیں جو خود سندھ ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس کے رشتہ دار ہیں۔
دوسرے کیس میں محمد افضل کی بیلف کی ملازمت کے لیے عمر کی حد میں 12 سال کی نرمی کی گئی، سماعت کے دوران الزام لگایا گیا کہ اس فرد کا تعلق ’فیصلہ سازوں‘ سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ، ماتحت عدالتوں میں ججز کے تقرر کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست
عدالت نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار درخواست میں لگائے گئے الزامات کا جواب دیں، بینچ نے مشاہدہ کیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کراچی غربی میں 9 اسٹینوگرافرز تعینات کیے گئے تھے اور ان میں سے صرف ایک کا تعلق اسی شہر سے تھا۔
مزید کہا گیا کہ عمر کی حد میں نرمی کے بعد 6 جونیئر کلرکس کا تقرر کیا گیا، ایک معاملے میں حد میں 4 سال 6 ماہ کی نرمی کی گئی۔
سندھ ہائی کورٹ کے انتظامی کنٹرول کے تحت جوڈیشل افسران کے تقرر کے بارے میں سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ اس معاملے میں انتخاب کے معیار پر سختی سے عمل کیا گیا۔
یاد رہے کہ 826 میں سے 49 امیدواروں کو پہلے ٹیسٹ کے بعد منتخب کیا گیا تھا اور مزید جانچ پڑتال کے بعد صرف 4 امیدواروں کو منتخب کیا گیا تھا، شارٹ لسٹ میں سے صرف ایک شخص کو منتخب کیا گیا۔
درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ صوبے کی ماتحت عدلیہ میں ہونے والی تقرریوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کی تشکیل کی ہدایت کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: حتمی فیصلے تک آئی جی سندھ اپنا کام جاری رکھیں: سندھ ہائیکورٹ
جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد درخواست گزار نے مزید کہا کہ قواعد کی مبینہ خلاف ورزی پر رجسٹرار، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام ڈسٹرکٹ ججز کے خلاف انکوائری شروع کرنے کی ہدایت کی جائے۔
درخواست میں یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ رجسٹرار، چیف جسٹس اور سندھ کی وزارت قانون سندھ ہائی کورٹ میں 2017 سے اب تک کی تقرریوں کا پورا ریکارڈ پیش کریں۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت عظمیٰ متعلقہ حکام کو ایسی تمام تقرریوں کو کالعدم قرار دینے کا حکم دے۔