وفاق، حکومت سندھ کے مابین افسران کے تبادلوں پر تنازع برقرار
کراچی: وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان 8 ڈی آئی جیز اور 4 سیکریٹریز کے تبادلوں پر تنازع بدستور برقرار ہے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی حکومت کی جانب سے مشاورت کے حوالے سے حال ہی میں کیے گئے دعوے مسترد کردیے اور کہا کہ مشاورت ایک سے زائد مرتبہ ہوئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے حکومت سندھ کی اس دلیل کو بھی مسترد کردیا کہ دیگر صوبوں میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) اور پولیس سروس آف پاکستان (پی اے ایس) کے 10، 10 برس سے زائد عرصے سے تعینات افسران کا تبادلہ نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ 9 نومبر کو ڈی آئی جی مقصود احمد، ڈی آئی جی جاوید اکبر ریاض، ڈی آئی جی نعیم احمد شیخ، ڈی آئی جی ثاقب اسمٰعیل میمن، ڈی آئی جی نعمان صدیقی، ڈی آئی جی یونس چانڈیو، ڈی آئی جی عبداللہ شیخ، ڈی آئی جی عمر شاہد، پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرمین حسن نقوی اور دیگر 3 سیکریٹریز کا دیگر صوبوں میں تبادلہ کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کابینہ نے افسران کے تبادلے کا فیصلہ مسترد کردیا
سندھ کابینہ نے تبادلے کے احکامات کو مسترد کردیا تھا اور وزیر اعلیٰ سندھ کا مؤقف تھا کہ وفاقی حکومت کسی بھی افسر کی تعیناتی یا تبادلے سے قبل ان کے ساتھ بامعنی مشاورت کرنے کی پابند ہے۔
صوبائی حکومت کے رویے کو ’بدقسمتی‘ قرار دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ تبادلہ شدہ افسران کو فوری طور پر چھوڑ دے تاکہ وہ دیگر صوبوں میں نئے عہدے سنبھال سکیں۔
تاہم حکومت سندھ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا اور وہ چیف سیکریٹری ممتاز علی شاہ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس مشتاق احمد کے ساتھ رواں ہفتے باضابطہ طور پر مشاورت کریں گے۔
مزید پڑھیں: 'آئی جی سندھ کا تبادلہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی تیاری ہے'
حکومت سندھ کے 15 اور 16 نومبر کے خطوط کا جواب دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا ایک خط میں کہنا تھا کہ پی ایس پی/پی اے ایس کے گریڈ 20 کے افسران کے تبادلوں کے سلسلے میں چیف سیکریٹری اور سیکریٹری جنرل ایڈمنسٹریشن، سندھ کے ساتھ تین مرتبہ مشاورت کی گئی۔
ڈویژن نے مزید کہا کہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 10، 10 سال کی سروس مکمل کرنے والے افسران کی فہرست کا چیف سیکریٹریز کے ساتھ تبادلہ کیا گیا تھا اور پہلے مرحلے میں تبادلوں کے لیے افسران کو نامزد کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
مزید کہا گیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا نے ان کی درخواست کا جواب دیا لیکن حکومت سندھ نے جواب نہیں دیا، اس کے علاوہ ان افسران کی فہرست کو دوسرے اور تیسرے مرحلے کے تبادلوں کے لیے بھی حکومت سندھ اور دیگر کو فراہم کیا گیا جبکہ افسران کے نام بھی بتائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاق نے کراچی پولیس کے سربراہ کی خدمات مانگ لیں
خط میں کہا گیا کہ ’شفافیت کے لیے تبادلوں کے لیے افسران کے نام اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ پر بھی 2 مارچ 2021 کو شائع کیے گئے تاہم کسی حکومت نے دوسرے اور تیسرے مراحل میں افسران کے تبادلوں پر اعتراض نہیں کیا۔
اسٹیبشلمنٹ ڈویژن کا کہنا تھا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق مشاورت کی گئی تھی، اس لیے سندھ حکومت کی جانب سے عدم جوابدہی اس مرحلے پر کیس بنانے کے لیے موزوں نہیں ہو سکتی۔
سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ تقرر و تبادلے سروس کی شرائط کا حصہ ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اس بات کا تعین کرنے کا مجاز ہے کہ سرکاری ملازم کو کہاں تعینات کیا جائے۔
مزید یہ کہ افسران کے تبادلے اور تقرر کے اس کے اختیارات کو دائرہ اختیار یا قانونی اختیار کے بغیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔