کورونا وائرس کا پہلا مریض کون تھا؟ ممکنہ جواب سامنے آگیا
کورونا وائرس کا پہلا مریض کب سامنے آیا تھا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین کی جانب سے کام کیا جارہا ہے۔
اب اس سوال کا ممکنہ جواب سامنے آیا ہے۔
درحقیقت کووڈ 19 کا پہلا کیس ووہان کی وائلڈ لائف مارکیٹ کی ایک دکاندار کا تھا۔
یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔
کورونا وائرس کا ماخذ اب تک ایک معمہ ہے جو چین اور امریکا کے درمیان تناؤ کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔
2021 میں چین اور عالمی ادارہ صحت کی ایک مشترکہ تحقیق میں اس خیال کو مسترد کردیا گیا تھا کہ یہ وائرس کسی وائرس کا تیار کردہ ہے اور بتایا گیا کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ وبا انسانوں میں قدرتی طور پر جنگلی جانوروں کی تجارت سے پھیلی۔
ایریزونا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ایک اکاؤنٹنٹ کووڈ 19 کا پہلا مریض تھا جس میں سب سے پہلے بیماری کی علامات 8 دسمبر کو رپورٹ ہوئی تھیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ پہلے کیس کے بارے میں الجھن کی وجہ اس فرد کے دانتوں کے مسائل تھے جس کے باعث وہ 8 دسمبر کو بخار کا شکار ہوا،اصل میں اس میں کورونا کی علامات کا آغاز 16 دسمبر سے ہوا۔
تحقیق کے مطابق اس فرد کی علامات ہونان مارکیٹ میں کام کرنے والے متعدد کیسز کے بعد سامنے آئی تھی اور سب سے پہلا کیس ایک خاتون دکاندار کا تھا جس میں علامات 11 دسمبر کو نمودار ہوگئی تھیں۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ علامات والے ابتدائی کیسز کا تعلق اس وائلڈ لائف مارکیٹ سے تھا بالخصوص مغربی حصے کے ورکرز کے، جس سے ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ زندہ جانوروں کا یہ بازار ہی وبا کا ماخذ ہے۔
تحقیق کے مطابق وہ اکاؤٹنٹ مارکیٹ سے 30 کلومیٹر دور مقیم تھا اور اس کا بازار سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ ممکنہ طور پر لوگوں میں بیماری کے پھیلنے کے بعد اس سے متاثر ہوا۔
محققین نے عندیہ دیا کہ وہ وائلڈ لائف مارکیٹ نہ صرف کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی صلاحیت کو بڑھانے کا باعث تھی بلکہ وہ ہی کووڈ کے ابتدائی پھیلاؤ کا ذریعہ بنی۔
انہوں نے کہا کہ ووہان کی مارکیٹ میں زندہ ممالیہ جانداروں اور دیگر جانوروں کی اسکریننگ کرکے کورونا سے منسلک وائرسز کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی، بلکہ یکم جنوری سے ہونان مارکیٹ کو بند کردیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ کووڈ کے اولین علامات والے کیسز کا تعلق اسی مارکیٹ سے تھا بالخصوص اس کے مغربی حصے میں، جہاں ریکون ڈاگز قید تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ جاننا لگ بھگ ناممکن ہے کہ یہ وائرس کس جانور سے انسانوں میں پھیلا کیونکہ کووڈ پھیلنے کے بعد ان کے ٹیسٹ نہیں ہوئے، مگر ابتدائی کیسز کے تجزیے سے یہ ضرور عندیہ ملتا ہے کہ ووہان کی مارکیٹ ہی اس وبا کے آغاز کا باعث بنی۔
محققین کے مطابق ان ابتدائی کیسز کے کے نمونوں کا جینومک اور دیگر اضافی ڈیٹا سے ان نتائج کو تقویت پہنچائی جاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مستقبل میں وباؤں کی روک تھام کا انحصار اسی کوشش پر ہے۔
تحقیق میں ماہرین نے چینی حکام کی جانب سے سسٹم کو الرٹ کیے جانے سے قبل 2 ہسپتالوں میں رپورٹ ہونے والے کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، ان میں سے زیادہ تر کیسز کا تعلق ووہان کی مارکیٹ سے تھا، یا جو وہاں کے ورکرز نہیں تھے وہ بھی اسی کے آس پاس کے رہنے والے تھے۔
اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی تحقیقی ٹیم کا حصہ رہنے والے طبی ماہر پیٹر ڈاسزک نے بتایا کہ وہ تحقیق کے نتائج پر یقین رکھتے ہیں، 8 دسمبر کی تاریخ ایک غلطی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اکتوبر 2021 میں کورونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات کے لیے ماہرین کے ایک نئے پینل کو تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے۔