اپوزیشن نے قوانین کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا مگر انہیں پڑھنے کی زحمت نہ کی، فروغ نسیم
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے پارلیمانی اجلاس روکنے کی کوشش کی اور قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ ہے، حالانکہ انہوں نے قوانین کو پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کوشش تھی کہ مشترکہ پارلیمانی اجلاس نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان قوانین میں اگر کچھ غیر پارلیمانی اور غیر قانونی ہے تو بتائیں لیکن کچھ لوگوں نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، جو قانون آپ نے پڑھے نہیں ہیں اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیسے کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ اپوزیشن کوئی بل منظور نہیں ہونے دینا ہی نہیں چاہتی۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ای وی ایم سےالیکشن کروانے سےالیکشن کمیشن کا کردار ختم نہیں ہوگا وہ قانون کے مطابق کام کریں گے۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں قانون سازی پر حکومت کو دو مرتبہ ناکامی کا سامنا
انہوں نے کہا کہ ای وی ایم اور پرانا سسٹم دونوں سو فیصد نہیں ہے لیکن ای وی ایم پرانے سسٹم سے بہتر ہے
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کلبھوشن سے متعلق قانون صرف ایک شخص کے لیے نہیں ہے یہ سب کےلیے ہے، جو بھی قانون کے پیرائے میں آئے گا یہ سب کے لیے یکساں ہوگا، حساس معاملات پر کھلے عام تبادلہ خیال نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت کی بات ہے جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی کلبھوشن کو مشاورت کی رسائی نہیں دی گئی تھی جس کے نتیجے میں بھارت آئی سی جے گیا اور اس ہی دوران حکومت تبدیل ہوئی، لہذا پی ٹی آئی اور اس کی حکومت کو یہ کیس ورثے میں ملا تھا۔
وزیر قانون کاکہنا تھا کہ بھارت کی خواہش تھی کہ کلبھوشن کو رہا کردیا جائے لیکن آئی سی جے نے اس کی خواہش کو مسترد کیا اور پاکستان یہ کیس جیت چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی سی جے جولائی 2019 میں آئی سی کے فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان میں آرٹیکل 199 اور 184/3 بھی موجود ہے، ساتھ ہی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو بھی سامنے رکھا گیا جس کے بعد آئی سی جے نے کہا کہ نتائج کا جائزہ لینا پاکستان کا فرض ہے جو پاکستان کو ہی کرنا چاہیے۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر یہ قانون نہیں آتا تو بھارت اپنے عزائم اپناتا اور پہلے پاکستان کے خلاف آئی سی جے میں اپیل دائر کی جاتی پھر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں پاکستان پر پابندیاں عائد کی جاتیں۔
مزید پڑھیں: متنازع قانون سازی کا معاملہ: اسپیکر قومی اسمبلی نے کمیٹی تشکیل دے دی
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن مردم شماری کی بات کر رہی ہے،مردم شماری پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہی کرائی گئی تھی اور جب نتائج آئے تو ایم کیو ایم نے ناراضی کا اظہا کرتے ہوئے عدالت میں درخواست دائر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت سے پاکستان کے تمام صوبوں نے دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ کیا،اور اب یہ مردم شماری جدید آلات کے ذریعے کی جائے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اعتراض کے بعد ریپسٹ کو نامرد بنانے کی شق نکال دی، ملیکہ بخاری
انسداد ریپ قوانین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیکریٹری برائے قانون ملیکہ بخاری کاکہنا تھا کہ پاکستان میں انسداد ریپ قوانین میں خلا تھا جس کی وجہ سے ان قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے خصوصی عدالتیں بنائی گئی ہیں تاکہ کیسز کے فیصلوں میں تعطل کو روکا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کیسز کے فیصلے 4 سے6 ماہ کے درمیان کیے جائیں گےاور اس کے لیے وفاقی و صوبائی سطح پر تحقیقاتی ادارے قائم کیے جائیں گے اور یہاں تربیت یافتہ افسران تفتیش کریں گے۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ میں عادی ریپسٹ کو کیمیائی طریقے سے نامرد بنانے کا بل منظور
انہوں نے کہا کہ اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کیا گیا جس میں خواتین و بچیوں کا طبی معائنہ کیا جائے گا اس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کریں گے اور اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے عملہ تعینات کیا جائے گا۔
ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ ریپ کے کیسز میں ملوث مجرموں کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا جس میں نادرا وزارت قانون کے ساتھ مل کر ریپ مجرموں سے متعلق رجسٹریشن کرے گی تاکہ اس طرح کے کیسز سے اچھی طرح نمٹا جا سکے۔
انہوں نے بتایا اسلامی نظریاتی کونسل نے کیمیائی طریقے سے نامرد بنانے کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اسے غیر اسلامی قرار دیا تھا، جس کے بعد اس طریقہ کار کو قانون کی شق سے نکال دیا گیاہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ ہم نے طلاق کے بعد خواتین کے حقوق اور جائیداد میں ورثے سے منتقل قوانین بھی منظور کیے ہیں۔