’اسٹیبلشمنٹ مغربی دنیا کی خوشنودی کیلئے انتخابی نتائج کنٹرول میں رکھتی ہے‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہماری بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ انتخابات کے نتائج اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے تاکہ مغربی دنیا کو بتایا جا سکے کہ مذہبی لوگوں کی موجودگی سے زیادہ پریشان نہ ہوں۔
کوئٹہ میں جے یو آئی (ف) کے علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج بھی دو بڑی عالمی معیشتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن اس ماحول میں ہمیں اپنے قومی اور اجتماعی مفاد کو مد نظر رکھنا ہے۔
مزیدپڑھیں: حکومت کی اتحادی جماعتوں کو گردن پر بوٹ رکھ کر مجبور کیا جا رہا ہے، فضل الرحمٰن
’70 سال امریکاکی غلامی میں گزارے ہیں‘
انہوں نے کہا کہ ہم نے 70 سال امریکاکی غلامی میں گزارے ہیں اور یورپ کی معیشت قابض رہی ہے، ہم نے ایک نئے مستقبل کا سفر کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم 70 سال سے کہتے آئے ہیں کہ چین، پاکستان کا دوست ہے، جب بیجنگ نے اپنے نئے مسقتبل کا آغاز کیا تو وہ پاکستان کی سرزمین سے شروع کیا اور جے یو آئی (ف) کا اس میں کردار تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ جب میں خارجہ امور کمیٹی کا چیئرمین تھا، تب ہماری کمیٹی کو دعوت دی گئی اور ایک ہفتے تک مذاکرات چلتے رہے اور انہوں نے ملک کے کچھ شہروں کو فری اکنامک زون قرار دیا جس کے جواب میں ہم نے مطالبہ کیا کہ سنکیانگ کو شہر اونچگی کو بھی فری اکنامک زون قرار دیں تاکہ پاکستان کے راستے سے آپ کی تاجر کے راستے کھل سکیں۔
انہوں نے کہا کہ چین نے ہماری تجویز کو قبول کیا اور یوں 70 سالہ دوستی ایک اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔
’سی پیک منصوبہ تباہ کردیاگیا‘
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے کہا کہ ملک میں گلگت سے گوادر تک سڑکیں اور صنعتی زون بنائے جائیں گے جس کے لیے 17 ہزار میگاواٹ بجلی درکار ہے لیکن اتنی بجلی کہاں سے آئے گی؟
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سی پیک منصوبہ تباہ کردیا گیا، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں عمران خان کو استعمال کرکے 126 دن کا دھرنا دیا گیا جس کے نتیجے میں چین کے صدر کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا اور یہ عمل امریکا اور یورپ کے لیے بڑی کامیابی کا باعث تھا۔
مزیدپڑھیں: بلاول کی فضل الرحمٰن سے ملاقات، حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کا عزم
انہوں نے کہا کہ ’جب پی ٹی آئی اقتدارمیں آئی تو سارا منصوبہ ہی خاک میں ملا دیا، تمام دیگر منصوبے رک چکے ہیں اور حکومت کہتی ہے کہ پاکستان میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مرغی خانہ کھولنے اور انڈے بیچنے کا کلیہ دیا اور اب تک اوکاڑہ کے پاس اراضی خریدی ہے جہاں اعلیٰ نسل کے گدھوں کی افزائش کیا جائے گی۔
’انتخابات کے بعد ایک وفد نے عمران خان کے ساتھ گزارا کرنے کی لالچ دی‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو میرے پاس ایک اعلیٰ سطح وفد پہنچا اور انہوں نے 3 اجلاس کیے جس میں مجھے لالچ دی کہ آپ حکومت کے ساتھ گزارا کر لیں بیرون ملک سے بہت پیسہ آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کھل کر واضح کردیا کہ آئندہ اس موضوع پر بات نہیں ہوگی اور یوں مجلس میں ایک سکوت طاری ہوا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آخر میں وفد نے اقرار کیا کہ آپ کی باتیں بالکل ٹھیک ہیں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے اور عمران خان مغربی تہذیب کا نمائندہ ہے اس لیے ہم اس کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب یہودی دنیا معاشی طور پر مدد دینا چاہے گی تو زمین پر کاروباری طبقہ جنم پائے گا تاکہ پیسہ ضم ہوسکے، اور وہ جب پیسہ دے گا تو اسلامی ماحول اور معاشرے کو دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کو تباہ کرنے کے لیے عمران خان سے زیادہ مناسب بندہ نہیں تھا۔
’جے یو آئی نے 14 ملین مارچ کیے‘
انہوں نے کہا کہ یہاں بہت پیسہ آیا لیکن معلوم نہیں کہا گیا، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہورہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ انتخابات کے نتائج اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے تاکہ مغربی دنیا کو بتایا جا سکے کہ مذہبی لوگوں سے مت گھبراؤ، ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے، اس مرتبہ نوٹس لیا اور ایسا نوٹس لیا کہ جے یو آئی نے 14 ملین مارچ کیے۔
مزیدپڑھیں: ادارے حقائق کو سمجھیں اور اپنے کردار کا جائزہ لیں، فضل الرحمٰن
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ 25 جولائی 2018 کو پاکستان کا تاریخی دن تھا، جب ملک کے عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور گزشتہ روز 17 نومبر پاکستان کی تاریخ کا یوم سیاہ تھا جب ہمارے پارلیمنٹ اور سینیٹ سے 51 قوانین ایک گھنٹے کے اندر پاس کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ جو مجرم عام انتخابات کے پیچھے کھڑا تھا وہ ہی مجرم قوانین منظور کرانے کے پیچھے کھڑا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ گزشتہ روز منظور ہونے والی ترامیم کو مسترد نہیں کرتے بلکہ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، حکومت کو اس پر بھی شرم نہیں آتی، اس قدر گندے کردار کے باوجود ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں۔