• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

معاشی ناانصافی

شائع August 20, 2013

فائل فوٹو --.

بلوچوں کو شکایت ہے کہ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے اور وہ ناراض ہیں-

ان کے احتجاج کی وجہ اذیتوں کے علاوہ تاریخی گہرائی میں پیوست ہیں- ہمیں یہ کہہ کر اسکی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ اس صوبے میں جو سرکشی نظر آتی ہے وہ ہندوستان کی بھڑکائی ہوئی ہے- ہو سکتا ہے آخرالذکر ہی اس کی وجہ ہو لیکن یہ بلوچوں کی شکایتیں ہی ہیں جو موجودہ سرکشی کو آگ دکھا رہی ہیں-

زیر نظر مضمون میں اٹھارویں ترمیم اور حالیہ این ایف سی ایوارڈز کے تحت ان کی شکایتوں کے معاشی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے تحت تقسیم کے اصول متعین کئے گئے ہیں جو بحیثیت مجموعی صوبوں کے حصّوں اور صوبوں کے قابل تقسیم وسائل کا احاطہ کرتے ہیں-

بلوچستان کی درخواست ہے کہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی بنیاد رقبہ پر یا آبادی کی نسبت مرکوز ہونی چاہئے (جس سے یہ ظاہر ہو کہ صوبہ میں جہاں آبادی کم اور منتشر ہو سماجی سہولتیں فراہم کرنے کے کم سے کم مصارف کتنے ہو سکتے ہیں)- میرے خیال میں اس مطالبے میں زیادہ وزن نہیں ہے-

میرا یہ محکم یقین ہے کہ بلوچوں کی جانب سے جو شکایات پیش کی جا رہی ہیں انہیں اطمینان بخش طریقے سے حل کرنے کیلئے ایک نئے وفاقی ڈھانچے کی ضرورت ہے تا کہ ریاست اس کو طویل مدت تک جاری رکھ سکے- اس کیلئے آئین کو نئے سرے سے مرتب کرنے اور قابل عمل ڈھانچے کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تا کہ، اٹھارویں ترمیم کے تحت جو صوبائی خودمختاری دی گئی ہے وہ مزید مستحکم ہو-

اس نئے انتظام کے تحت بنیادی طور پر تمام کلیدی وسائل کا مکمل کنٹرول (خاص طور پر وہ وسائل جو زمیں کے نیچے دستیاب ہیں مثلا تیل، گیس اور اہم دھاتیں) ان صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دینا چاہئے جہاں یہ واقع ہوں (موجودہ قوانین کے تحت صوبوں کو پچاس فی صد کنٹرول دیا گیا ہے لیکن اس پر بھی تاحال عمل نہیں ہوا ہے)-

اپنی اس تجویز کے دفاع میں میں یہ کہونوں گا کہ اگرامریکہ میں (یا دنیا کے دیگر وفاقوں میں مثلا کینیڈا اورآسٹریلیا) پاکستان کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ نافذ کر دیا جائے تو ٹیکساس جہاں تیل کے ذخائر ہیں دولتمند صوبہ نہیں ہو گا بلکہ نیو یارک اور واشنگٹن کا کاروباری طبقہ اس سے فائدہ اٹھائیگا- اب اس کا مقابلہ امریکہ سے کیجئے جہاں ٹیکساس کے شہری اس دولت کے مالک ہیں جبکہ پاکستان میں بلوچستان جو تاریخی لحاظ سے ملک کے روح رواں اور بنیادی وسائل کی دولت سے مالامال ہے طبعی اور سماجی انفرااسٹرکچر کے لحاظ سے سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہے گرچہ کہ منتخب بلوچ قیادت عیاشی کی زندگی بسر کر رہی ہے-

اس سے بھی بڑھ کر تو یہ کہ جہاں پنجاب کی حکومت خود اپنی حکمت عملی اور ترقیاتی منصوبے مرتب کر سکتی ہے وہاں بلوچستان جس کے دو اہم اثاثے، اسکی معدنیات اور اسکا ساحل ہیں، خود اپنے ترقیاتی منصوبے نہیں بنا سکتا- کیونکہ ان دونوں اثاثوں کو وفاقی حکومت کنٹرول کرتی ہے-

یہ دلیل کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کے فیصلوں میں شریک ہوتی ہے اور اسے معدنی وسائل کی رائلٹی دی جاتی ہے (رائلٹی کے تعین میں صوبوں کا رول محدود ہے) ایک کمزور دلیل ہے کیونکہ اس کے تحت ملکیت کے صوبائی حقوق کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور اسے اثاثوں کو استعمال کرنے، انہیں فروخت کرنے/ لیز پر دینے کے فیصلوں میں مکمل خودمختاری حاصل نہیں ہے-

حکومت کے ترجمانوں کا افسوس کے ساتھ یہ کہنا کہ شق 158 کی محدود تشریح کے پیش نظرجس میں اس صوبے کے باشندوں کو جہاں گیس دریافت ہوئی ہے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اس کے استعمال کیلئے فوقیت دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا غیر پیداواری استعمال ہوتا ہے اورجس کی وجہ سے دیگرصارفین کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، اس بات کو بآسانی فراموش کر دیتے ہیں کہ پنجاب ہر سال 144 کی شق نافذ کر کے گندم کی نقل وحرکت کوروک دیتا ہے تا کہ وہ گندم کی فصل کومارکیٹ کی قیمت سے کم داموں میں خرید سکے اور اپنے صوبے کے شہریوں کو سبسڈیز دے سکے-

یہ ناانصافی صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی- دوسرے صوبے اپنے علاقے کی کپاس، گیہوں اور دیگر متعلقہ اشیاء کو بلوچستان کوجس قیمت پر فروخت کرتے ہیں وہ عالمی منڈی کی قیمتوں سے زیادہ ہوتی ہے جبکہ ان کی گیس دیگر صوبوں کے باشندوں کو عالمی منڈی کی قیمتوں سے کہیں کم قیمت پر فروخت کی جاتی ہے اور ان کے کم ہوتے وسائل کی رایلٹی بھی برائے نام دی جاتی ہے-

اسی لئے بلوچوں کو اپنے معدنی وسائل پر مکمل کنٹرول دیا جانا چاہئے اور انہیں چاہئے کہ وہ ان کی قیمت بین الاقوامی سطح پر مقرر کریں جس طرح دیگرصوبوں کے فیصلہ ساز کرتے ہیں- وفاقی سطح پر بھی دیگر پیداوار کی قیمت عالمی منڈیوں کی قیمتوں کی سطح پر مقرر کی جاتی ہے جس کیلئے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسکی پیداوار اور فروخت نجی شعبہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ معاشی پالیسی کو مسخ شدہ قیمتوں کے ڈھانچے کی وجہ سے موثر سرمایہ کاری کے راستے میں حائل نہیں ہونا چاہئے-

اسلام آباد کو بھی اس بات پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ان بہت سی سرگرمیوں کو ترک کر دے جسکی ایک جزوی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس صوبے میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ اس درجے کے پروجکٹوں پرعمل درآمد کر سکے (حالانکہ خود وفاقی ایجنسیاں بھی نجی مشیروں اور کنٹریکٹرز کی خدمات سے استفادہ کرتی ہیں) اور یہ کہ این ایف سی ایوارڈز کے تحت یا خصوصی پیکجز کے تحت جو رقم صوبوں کو دی جاتی ہے وہ صوبائی قیادت اپنے نجی کھاتوں میں جمع کر دیتی ہے-

وفاقی منصوبوں میں گوادر اور گڈیانی (چین کی شراکت میں) سینڈک اور ریکوڈک پروجکٹ اورصوبائی سڑکیں شامل ہیں- ان منصوبوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری بھی جن کی ڈیزائننگ ناقص ہے اور جنہیں تیار کرتے وقت مقامی ضروریات اور ترجیحات کو پیش نظرنہیں رکھا گیا ہے، صوبائی حکومت کی ہونی چاہئے-

بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت ان کاموں سے دست بردار ہونے کیلئے تیارنہیں ہے جن پر نچلی سطح کی حکومتوں کا جائز حق ہے- اس کے علاوہ وہ اپنا حجم، توسیعی کردار اور اختیارات کی تصحیح کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے جو اس نے اپنے سر لے لی ہے-

اس کے علاوہ یہ دلیل کہ صوبے میں بدعنوان قیادت کے ہاتھوں لوٹ کھسوٹ کئے جانے والے فنڈوں کو بچانے کی ضرورت ہے، حیرت انگیز ہے- اس بات کے پیش نظر کہ جو لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں خود انکے ہاتھ بھی صاف نہیں ہیں نہ ہی وہ صوبے کے رائے دہندوں کے سامنے جواب دہ ہیں جن کیلئے یہ رقومات ان پروجکٹوں پر صرف کی جاتی ہیں جو صوبائی قیادت کی ترجیحات میں شامل بھی نہیں ہیں-

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس دلیل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہم ابھی تک دیانت دار اور فیاض برطانوی حکومت کی نوآبادی ہیں-

اس لئے موجودہ غیر منصفانہ نظام کا حل یہی ہے کہ ایک حقیقی وفاقی نظام قائم کیا جائے نہ کہ ایسا سیاسی نظام مسلط کیا جائے جو "اعلی ترین قومی مفاد" کے غلط تصور پر مبنی ہو-

نہ ہی بلوچستان میں وفاقی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو وسیع تر کرنے اور وفاقی پبلک سروس کی ملازمتوں اور پروجکٹوں میں بلوچوں کا کوٹا بڑھانے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے-


ترجمہ . سیدہ صالحہ

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024