سینیٹرز کا اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا کیسز پر اظہار تشویش
اعلیٰ عدالتوں میں بڑی تعداد میں التوا کا شکار کیسز پر سینیٹرز نے تشویش کا اظہار کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مختلف عدالتوں میں التوا کا شکار بے شمار کیسز کے پیچھے وجوہات تلاش کرنے سے متعلق تحریک اور حکومت کی جانب سے کیسز کو جلد اور تیزی سے نمٹانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے اپنے سروے کے مطابق ملک کی مختلف عدالتوں میں 21 لاکھ کیسز التوا کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف عدالت عظمیٰ میں ہی 51 ہزار 138 کیسز التوا کا شکار ہیں۔
جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستانی ججوں کی سہولیات و مراعات دنیا کے دس اعلیٰ ججوں میں شامل ہیں لیکن انصاف کی فراہمی کے معاملے پر ملک 124ویں نمبر پر ہے۔
مزید پڑھیں: عدالتوں میں زیر التوا سیکڑوں مقدمات، واجبات کی وصولی میں رکاوٹ
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ریٹائرڈ جج کو اس کی پینشن کی مد میں 6، 7 لاکھ روپے اور دیگر مراعات و پروٹوکولز فراہم کیے جارہے ہیں لیکن انصاف کہاں ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ سونے کی چابی سے عدلیہ کا دروازہ کھلتا ہے اور اگر یہاں ججوں کے احتساب کا کوئی مرحلہ ہے تو 21 لاکھ کیسز التوا کا شکار کیوں ہیں؟
مشتاق احمد نے سوال کیا کہ ججز کا کہنا ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے، ایسے ہی دیکھنا ہے تو کیا آپ مقدس گائے نہیں ہیں؟
انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کیوں فراہم نہیں کیا جارہا ہے جبکہ ججز، ڈیم کی تعمیر اور ایسی دیگر چیزوں پر زور دے رہے ہیں، انہوں نے اب تک کس مافیا کو سزا دی ہے، کیا چینی مافیا، پیٹرول مافیا یا پانامہ کیسز میں سزا سنائی گئی؟
مزید پڑھیں: طویل عرصے سے زیر التوا متعدد درخواستوں کی سماعت کیلئے فل بینچ تشکیل
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ججز کی ایک ہزار 48 خالی آسامیوں پر بھرتیاں کی جائیں اور تجربہ کار ججوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کی جائے تاکہ بچنے والی رقم نئے ججز کو دی جاسکے۔
انہوں نے تجویز دی کہ ججز کی تربیت کرتے ہوئے عدالتوں میں دوسری شفٹ شروع کی جائے تاکہ التوا کا شکار کیسز جلد از جلد نمٹائے جاسکیں۔
علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر رخسانہ زبیری نے بھی عدالتوں میں ججوں کے کام کے اوقات کار بڑھانے کا مطالبہ کیا۔
سینیٹر اعظم تارڑ نے تجویز پیش کی کہ ایک آئینی عدالت تشکیل دی جائے تاکہ اعلیٰ عدلیہ کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ججوں کے استعداد کار میں اضافہ کیا جائے۔
مزید پڑھیں: کیا عوام کئی دہائیوں سے انصاف کے منتظر ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹ کو چاہیے کہ عدالتی اصلاحات متعارف کرواتے ہوئے قوانین میں ترمیم کرے۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر علی ظفر نے قانون کی متضاد شقوں کے ساتھ راستے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مفاہمت اور ثالث کے ذریعے فیصلہ کرنے کے نظام سے متعلق ایک یکساں قانون ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی اور صوبائی معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک وفاقی عدالت قائم کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کا کہنا تھا کہ حکومت آئندہ سال عدالتی اصلاحات کا اعلان کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت انصاف میں شفافیت چاہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ: 30 خصوصی عدالتوں نے 19 ماہ میں 2 ہزار 210 کیسز نمٹادیے
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ایک بنیادی فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت تمام دیوانی مقدمات 3 سال کے اندر نمٹا دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ شواہد کے قانون میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، اب ویڈیو کے ذریعے شواہد فراہم کرنا ممکن ہوگا۔
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے ایوان کے اپوزیشن رہنما سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے انتخابی اصلاحات کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی دعوت پر مثبت جواب دیا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا نے الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے اراکین کے تقرر کے لیے پارلیمانی پینل سے مشاورت نہ کرنے پر احتجاج کیا۔