ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں، عوام کے صبر کا امتحان نہ لیں، پی ڈی ایم
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پالیسیوں اور قانون سازی پر تنقید کرتے ہوئے اداروں پر ان کی حمایت کے لیے حکومتی اتحادی جماعتوں پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت ورچوئل فارمیٹ میں ہوا۔
مزید پڑھیں: ادارے حقائق کو سمجھیں اور اپنے کردار کا جائزہ لیں، فضل الرحمٰن
سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، جمعیت علمائےپاکستان (جے یو پی)کے جنرل سیکریٹری شاہ اویس نورانی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے مرکزی قائدین نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں ملک کی مجموعی صورت حال، نیب ترمیمی بل، الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور انتخابی اصلاحات سمیت حکومت کی جانب سے مسودہ ہائے قوانین سے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور پی ڈی ایم کی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔
پی ڈی ایم کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کی شدید الفاظ میں مذمت کی کہ ریاستی ادارے حکومت کی اتحادی جماعتوں کو قانون سازی میں حکومت کی مدد کرنے پر مجبور کررہے ہیں اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے لوگوں سے ٹکٹس کی کاپیاں بھی حاصل کی گئی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ پی ڈی ایم ریاستی اداروں کی اس مداخلت کو قبول نہیں کرتی اور اس عمل کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے کہا کہ اجلاس زور دیتا ہے کہ ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اور عوام کے صبر کا امتحان نہ لیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا پی ٹی آئی کے تین اراکین کےخلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور
اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس نے 22 نومبر 2021 کو پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا جس میں حکومت کی طرف سے لائے جانے والے قوانین کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے سے متعلق سفارشات اور تجاویز تیار کی جائیں گی۔
اس ضمن میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضیٰ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطاءاللہ تارڑ کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ وکلا سے مشاورت کے ساتھ ان قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے متعلق ضابطے کی کارروائی مکمل کریں۔
قانونی کارروائی سے متعلق اس پینل میں سابق وزیراعظم اور پی ڈی ایم کے سیکریٹری جنرل شاہد خاقان عباسی کو بھی شامل کیاگیا ہے۔
پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ یہ پینل نیب ترمیمی آرڈیننس، الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم)، اسٹیٹ بینک کے اختیارات سلب کرکے آئی ایم ایف کے حوالے کرنے جیسے معاملات کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کی تیاری کو حتمی شکل دیں گے۔
بیان کے مطابق اسٹیئرنگ کمیٹی کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کی تاریخ اور اس کے لیے تجاویز تیار کرکے پی ڈی ایم کے آئندہ سربراہی اجلاس میں پیش کی جائیں۔
اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ پی ڈی ایم کا آئندہ سربراہی اجلاس 23 نومبر 2021 کو ہوگا جس میں اسٹیئرنگ کمیٹی میں مرتب کردہ تجاویز اور سفارشات کی حتمی منظوری دی جائے گی۔
اجلاس نے کوئٹہ اور پشاور میں پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں کو پہلے سے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق منعقد کرنے کی منظوری دی اور قائدین اور کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ پورے جذبے، یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ ان جلسوں کی تیاریوں کے عمل کو شیڈول کے مطابق آگے بڑھائیں۔
مزیدپڑھیں: ملک اس وقت داخلی اور خارجی سنگین خطرات سے دوچار ہے، پی ڈی ایم
پی ڈی ایم کے اجلاس نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مہنگائی کی تلوار سے عوام کو ہر روز قتل کر رہی ہے، آٹا، چینی، گھی سمیت بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہ صرف عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں بلکہ یہ اشیا عوام کو مہنگے داموں بھی میسر نہیں ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا یہ عوام کے ساتھ دہرا ظلم ہے، یہ صورت حال ناقابل برداشت اور انتہائی قابل مذمت ہے، عوام کے ساتھ اس ظلم کا ذمہ دار وزیراعظم کی کرسی پر مسلط ناجائز حکمران ہے۔
اجلاس نے بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ تاریخ کی مہنگی ترین گیس کی قیمت کے باوجود ملک میں شدید بحران نے عوام اور صنعتی شعبے کی نیندیں اڑا دی ہیں اور سردیوں کی آمد سے قبل ہی عوام ایک نئی اذیت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
پی ڈی ایم نے کہا کہ تین سال سے زائد عرصے میں موجودہ حکومت عوام کو راشن کارڈ اور تین وقت گیس کی فراہمی کی بھیک پر لے آئی ہے، حکمران عوام کو بنیادی سہولیات بھی بھیک کی طرح دے رہے ہیں جو ملک میں انتظامی مشینری اور نظام کے مفلوج ہونے کا ثبوت ہے۔
اجلاس نے عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اور اس کے عوام کو مشکلات اور مصائب کے گرداب سے نکالنے کے لیے واضح ذہن اور ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں گے کیونکہ موجودہ کرپٹ، نااہل اور ووٹ چور حکومت نے عوام سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا ہے۔