ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی برقرار رہنے کا خدشہ
نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی ان کے دعوے کے مطابق جزوی نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملالہ یوسف زئی نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے انڈریو مار پروگرام میں کہا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ طالبان کی جانب سے حال ہی میں جس پابندی کا اعلان کیا گیا ہے وہ اسے جزوی کہہ رہے ہیں لیکن شاید یہ حقیقت میں جزوی نہ ہو‘۔
مزید پڑھیں: افغانستان: خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں، طالبان
انہوں نے نشاندہی کی کہ لڑکیوں کی تعلیم پر 1996 میں بھی اسی طرح کی پابندی عائد کی گئی تھی ’جو پانچ سال تک برقرار رہی تھی‘۔
اگست میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے ستمبر میں لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے واپس بھیج دیا تھا جبکہ لڑکوں کو کلاسوں میں جانے کا حکم دیا تھا۔
طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ لڑکیوں کے تحفظ اور اسلامی قوانین کے تحت سخت علیحدگی یقینی بنانے کے لیے اسلامی قوانین کی تشریح کریں گے جس کے بعد وہ لڑکیوں کو واپس اسکول جانے کی اجازت دیں گے۔
یاد رہے ان کے دعوے سے متعلق بہت سے لوگ شبہات میں مبتلا ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی
ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ ’ہم طالبان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ لڑکیوں کو ان کی مکمل تعلیم تک جلد رسائی فراہم کی جائے‘۔
ملالہ یوسف زئی نے جی ٹوئنٹی کے رہنماؤں اور دنیا کے دیگر ممالک کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں لڑکیوں کی حقوق کی حفاظت کریں۔
گزشتہ ہفتے ٹوئٹر پر عصر ملک کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے کا اعلان کرنے والی 24 سالہ ملالہ یوسف زئی نے گزشتہ ماہ طالبان کو کھلا خط بھیجا تھا جس میں پابندی واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں