اسرائیلی فوجیوں نے آبادکاروں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پر تشدد کیا، این جی او
اسرائیل میں انسانی حقوق کے گروپ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف یہودی آباد کاروں کے تشدد کے 183 واقعات میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے مداخلت نہیں کی اور بعض اوقات ان حملوں میں حصہ بھی لیا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حقوق گروپ بطسیلیم نے کہا کہ اس نے گزشتہ سال کے اوائل سے مغربی کنارے پر فلسطینیوں پر 451 آباد کاروں کے حملوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل، فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت کو نظرانداز نہ کرے، انجیلا مرکل
اس سلسلے میں بتایا گیا کہ فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے حملے اسرائیلی نسل پرست حکومت کی ایک حکمت عملی ہے جو زیادہ سے زیادہ فلسطینی اراضی کے ناجائز قبضے میں توسیع کی کوشش کرتی ہے۔
اسرائیل نے 1967 سے مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ اس کا سلوک نسل پرستی کے مترادف ہے۔
بطسیلیم کے مطابق آبادکاروں پر تشدد کے 183 واقعات میں فوج حملہ آوروں کے ساتھ کھڑی رہی یا ان کی مدد کی۔
اس کے نتیجے میں پانچ فلسطینی ہلاک اور 22 گرفتار ہوئے۔
اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز نے بطسیلیم کے تازہ ترین الزامات سے متعلق سوالات کا فوری جواب نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟
بطسیلیم کے ترجمان درور سادوت نے کہا کہ گروپ نے سیکیورٹی فورسز سے رابطہ نہیں کیا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔
گروپ کے مطابق مغربی کنارے کے پانچ ٹیسٹ کیسز میں پرتشدد آباد کاروں نے 2ہزار 800 ہیکٹر سے زیادہ اراضی پر قبضہ کر لیا۔
فلسطینی کمیونٹی الطوانی سے تعلق رکھنے والے 48 سالہ شیفرڈ جمعہ ربیبی نے بطسیلیم کو بتایا کہ آباد کاروں کے حملے انہیں کھیتی باڑی سے محروم کررہے ہیں حالاجنکہ ان کے خاندان کا گزر بسر کھیتی باڑی سے ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں آباد کاروں نے مجھ پر شدید حملہ کیا تھا، انہوں نے میری ٹانگ توڑ دی تھی، اور مجھے دو ہفتے ہسپتال میں گزارنے پڑے تھے جبکہ گھر میں بھی علاج جاری رکھنا پڑا تھا۔
مزید پڑھیں: مسئلہ فلسطین: مصر، اسرائیل کا 'مستقل جنگ بندی' کیلئے تبادلہ خیال
ان کا کہنا تھا کہ علاج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مجھے اپنی زیادہ تر بھیڑیں بیچنی پڑیں۔
تقریباً 5 لاکھ اسرائیلی مغربی کنارے کی بستیوں میں منتقل ہو چکے ہیں جنہیں عالمی برادری غیر قانونی قرار دیتی ہے۔