افغان وزیر خارجہ نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے جنگ بندی معاہدے کو خوش آئند قرار دے دیا
افغان عبوری وزیر خارجہ نے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مابین عارضی جنگ بندی معاہدے کو خوش آئند قرار دے دیا۔
امیر خان متقی نے اسلام آباد میں آئی ایس ایس آئی میں سیمینار سے خطاب میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی بھی تصدیق کی۔
اس دوران امیر متقی نے افغان عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی مذاکرات میں کردار کے سوال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے آنے والے دنوں میں مذاکرات مزید آگے بڑھیں گے، توقع کرتے ہیں عارضی جنگ بندی مستقل امن معاہدے میں تبدیل ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت افغان سرزمین میں پاکستان مخالف عناصر موجود نہیں اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی ہے۔
یاد رہے پاکستانی حکام گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ملک میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کی غرض سے ایک وسیع تر امن معاہدے کے لیے کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ عارضی مفاہمت ہوگئی ہے۔
افغانستان کے جنوب مغربی صوبے خوست میں تقریباً دو ہفتوں سے دونوں فریقین کے درمیان براہ راست بات چیت جاری تھی۔
بات چیت کا نتیجہ ملک بھر میں جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے ایک عارضی مفاہمت کی صورت میں نکلا جو اعتماد سازی کے لیے ٹی ٹی پی کے کچھ معمولی جنگجوؤں کی رہائی سے مشروط ہے۔
یاد رہے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، پتا نہیں یہ بات کہاں سے شروع ہوئی ہے، ابھی تو بات ہو گی، پھر پتا چلے گا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اس حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں۔
مزید پڑھیں: طالبان افغانستان کے اندر اور باہر امن مخالف عناصر پر کڑی نظر رکھیں، وزیرخارجہ
انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت ٹی ٹی پی کو وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو انہیں سابقہ افغان حکومت اور بھارت فراہم کرتے تھے، ابھی ٹی ٹی پی سے کوئی بات نہیں ہوئی، ہمیں معلوم ہے کہ ماضی میں معاہدوں پر عمل نہیں ہوا لیکن اگر وہ ریاست کی رٹ اور سیز فائر پر تیار ہیں تو بات ہو سکتی ہے، یہ ریاست کا کام ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دنیا کے تمام بڑے تنازعات کا اختتام مذاکرات پر ہوتا ہے، جو بھی مذاکرات کرتا ہے تو دوسرے فریق نے اس کے بندے مارے یا شہید کیے ہوتے ہیں، اگر آپ یہ مؤقف اپنا لیں تو پھر کوئی بات نہیں ہو سکتی اور آپ کو آخر تک لڑنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی شرائط متاثرہ افراد اور پورے پاکستان کے اتفاق رائے سے طے کی جائیں گی، جو بھی بات ہو گی وہ آئین کے مطابق ہو گی۔
دوسری جانب حکومت کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کا اظہار کیا گیا، سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے ایوان میں معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کالعدم تنظیم سے مذاکرات کا فیصلہ کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا پاکستان، ٹی ٹی پی مذاکرات پر ’خاص ردعمل‘ دینے سے انکار
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ کو غیر متعلقہ بنا دیا گیا ہے کیونکہ اسے محض اندھیرے میں رکھ کر کیے گئے اہم فیصلوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ اگر ایسا رویہ رکھا گیا تو پارلیمنٹ کو تالا لگا دینا بہتر ہوگا۔
پی پی پی کی سینیٹ میں پارلیمانی رہنما اور نائب صدر شیری رحمٰن نے سوال اٹھایا کہ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وزیر اعظم جنہیں 'اچھے طالبان' کہتے ہیں ان کے ساتھ کیا سیاسی حل نکالنا چاہتے ہیں، کیونکہ دہشت گردوں سے لڑائی میں شہریوں اور فوجیوں کی بڑے پیمانے پر قربانیوں سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
ادھر اے پی ایس واقعے میں متاثر ہونے والے خاندانوں کا کہنا ہےکہ ٹی ٹی پی طلبہ سمیت معصوم افراد کے بہیمانہ قتل میں براہ راست ملوث ہے اور حکومت کو دہشت گردوں کے حوالے سے مساوی پالیسی اختیار کرنے سے احتیاط کرنی چاہیے۔
’ امریکا اور عالمی برادری افغان حکومت سے کیا چاہتی ہے؟‘
سیمینار سے خطاب میں افغان عبوری وزیر خارجہ کا کہنا تھا ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کون سا ایسا عمل کریں جس سے امریکا سمیت دیگر ممالک ہمیں تسلیم کریں.
عبوری وزیر خارجہ کے مطابق افغانستان کو بڑی فوج کی ضرورت نہیں ہے ہم مختصر اور باصلاحیت فوج تشکیل دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت وسیع البنیاد ہے، ہماری حکومت میں تمام قومیتیں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صحت کی وزارت و اداروں میں خواتین سو فیصد واپس آچکی ہیں، تعلیمی اداروں میں 75 فیصد خواتین واپس ڈیوٹی پر آچکی ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت، ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا حصہ نہیں، مولانا فضل الرحمٰن کا دعویٰ
افغان عبوری وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے آج ملاقات ہوگی۔
یاد رہے افغان وزیرخارجہ، وزیرخزانہ ہدایت اللہ بدری، وزیر صنعت اور تجارت نورالدین عزیز اور وزارت ایوی ایشن کے سینئر عہدیداروں سمیت اعلیٰ سطح کے 20 رکنی افغان وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر موجود ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ نے افغان وفد کو ‘ٹرائیکا پلس’ اجلاس میں شریک روس، چین اور امریکی نمائندگان خصوصی برائے افغانستان کے ساتھ ہونے والی ملاقات اور گفت و شنید کے بارے میں مطلع کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں افغانستان کی عبوری حکومت کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا جائے۔
انہوں نے افغان وفد کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی روابط، تجارتی راہداری میں فراہم کردہ سہولت اور انسانی معاونت کے لیے کیےگئے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان کو انسانی بحران سے نکالنے اور عالمی برادری کی توجہ افغانستان کی مخدوش اقتصادی صورت حال کی جانب مبذول کروانے پر وزیر خارجہ سمیت پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔