مہنگے برانڈز کے سستے مزدوروں کی بپتا
کراچی کی گارمنٹ فیکٹریوں میں مزدوروں کے ساتھ ہونے والا بُرا سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مقبولِ عام مقامی اور بین الاقوامی فاسٹ فیشن برانڈز کے لیے کپڑے تیار کرنے والے یہ مزدور ایسی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں جو اکثر کسی جیل کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ یہ بغیر کسی مراعت کے بہت ہی کم اجرت پر طویل دورانیے تک کام کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ سندھ حکومت کی جانب سے کم از کم آمدن میں اضافے کے اعلان سے زمینی صورتحال بھی تبدیل ہوئی ہے یا نہیں؟
35 سالہ یٰسین کورنگی انڈسٹریل ایریا کے ایک مصروف چائے ڈھابے پر بیٹھے بے چینی سے اپنی ڈائری کے ورق الٹ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی اہم چیز کی تلاش میں ہیں۔ بالآخر وہ ایک فیکٹری کی کچھ تصویروں پر رک گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’رفیق نامی میرا دوست یہاں کام کرتا ہے‘۔ یٰسین نے مزید بتایا کہ اس فیکٹری میں مشہور بین الاقوامی فاسٹ فیشن برانڈز کے لیے کپڑے تیار ہوتے ہیں (فاسٹ فیشن کی اصطلاح ایسے کاروبار کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں عالمی سطح پر مقبول فیشن کی نقول بڑے پیمانے پر اور کم قیمت میں تیار کی جاتی ہیں۔ قیمت کو کم رکھنے کے لیے مزدوروں کے استحصال، آلودہ اور ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی توانائی اور کیمیائی مادوں کے استعمال جیسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں)۔
یٰسین سندھ سجاگ لیبر فیڈریشن کے چیف آرگنائزر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان فیکٹریوں کو سینٹرل جیل اور یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو جیل میں بند قیدیوں سے تشبیح دیتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک مزدور کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فیکٹری میں کب داخل ہوگا لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا کہ واپس کب جائے گا‘۔
یٰسین نے ہمیں بتایا کہ وہ کافی وقت سے رفیق کا انتظار کر رہے ہیں اور شاید انہیں مزید انتظار کرنا پڑے۔
یٰسین کراچی کے معاشی حب کورنگی انڈسٹریل ایریا کی کئی فیکٹریوں میں کام کرچکے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اسی فیکٹری میں کام کیا تھا جہاں اس وقت رفیق کام کر رہے ہیں۔ یٰسین کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس وجہ سے نکال دیا گیا کیونکہ انہیں مسائل پیدا کرنے والا سمجھا جارہا تھا۔ یٰسین کا جرم فیکٹری کے اندر انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھانا تھا۔
یٰسین نے کہا کہ 'کئی مہینوں تک نوکری پر بحالی کی کوششوں کے بعد میں نے یہ عزم کرلیا کہ میں صنعتی مزدوروں کو منظم کروں گا اور ان فیکٹری مالکان کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کرتا رہوں گا جو ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم رکھتے ہیں‘۔
یٰسین کی گفتگو جاری تھی اور میز پر چائے کے کپوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اتنے میں پرانی قمیض شلوار میں ملبوس ایک شخص ڈھابے میں داخل ہوا۔ اس کے بال دھول میں اٹے ہوئے تھے اور اس کی قمیض پر پسینے کے دھبے عیاں تھے۔ وہ شخص رفیق تھا۔
رفیق نے دونوں ہاتھ جوڑ کر یٰسین سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ’میں دیر سے آنے کے لیے معذرت چاہتا ہوں‘۔
اس معذرت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یٰسین کو بھی اس تاخیر کی وجہ بہتر طور پر معلوم تھی۔
رفیق نے کہا کہ، ’میں کل صبح 8 بجے کام پر گیا تھا اور مجھے آج رات 8 بجے گھر جانے کی اجازت ملی۔ میں 36 گھنٹوں تک کام کرتا رہا اور اس دوران میں نہ سویا اور نہ ہی پلک تک جھپکائی‘۔
رفیق گزشتہ 2 سال سے اس فیکٹری میں بطور ہیلپر کام کر رہے ہیں۔ جب جب فیکٹری کو مشہور بین الاقوامی برانڈز کے آرڈر پورے کرنے ہوتے ہیں تو رفیق کو طویل دورانیے تک کام کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ بدسلوکی ایک پرانا رجحان ہے۔ رفیق نے بتایا کہ اپنی تمام تر کوششوں کے بعد بھی وہ کم از کم اجرت سے بھی کم رقم حاصل کرتے ہیں۔ وہ جس فیکٹری میں کام کرتے ہیں وہاں مزدوروں کو موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی موبائل فون لے جاتے ہوئے یا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کی معمولی اجرت میں سے 500 روپے کاٹ لیے جاتے ہیں۔
ایک امید کی کرن اس وقت پیدا ہوئی تھی جب رواں سال سندھ حکومت نے حکم جاری کرتے ہوئے صوبے بھر میں کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں، مبصرین اور میڈیا اراکین کی جانب سے اس فیصلے کی خوب حمایت کی گئی۔ اس حوالے سے اخبارات میں تعریفی کالمز بھی شائع ہوئے۔ تاہم یہ فیصلہ ہر کسی کے لیے خوشی کا باعث نہیں تھا۔
کم از کم اجرت
9 جولائی 2021ء کو سندھ حکومت کے لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ وہ ’یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ غیر ہنرمند کم عمر اور بالغ مزدوروں کی کم از کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی جاتی ہے‘۔
نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا اس کا طلاق یکم جولائی 2021ء سے سندھ کے تمام صنعتی و کاروباری اداروں میں کام کرنے والے ہر غیر ہنرمند کم عمر اور بالغ مزدور پر ہوگا۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اوقاتِ کار اور اوور ٹائم کی شرائط اور چھٹی کے دن کام کا تعین سندھ فیکٹریز ایکٹ، 2015ء، پیمنٹ آف ویجز ایکٹ، 2015ء اور دیگر متعلقہ لیبر قوانین کی روشنی میں ہوگا۔
لیکن یٰسین اور رفیق کی طرح فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات اس کے باوجود بھی نہیں بدلے۔ جیسا کہ گمان تھا جلد ہی کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی)، سائٹ (سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹس) ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں نے اس حکم کے خلاف درخواست دائر کردی۔ کم از کم اجرت کو 17 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کرنے کے فیصلے نے صنعت کاروں کو ناراض کردیا۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی۔
صنعت کاروں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ ملک کے گارمنٹ حب کراچی کو چھوڑ کر اپنا کاروبار پنجاب جیسے صوبوں میں منتقل کردیں جہاں کی پالیسیاں ان کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق بزنس مین گروپ اور کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن (کیپٹا) کے چیئرمین زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ جب ملک بھر میں پیٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کے نرخ ایک جیسے ہیں تو پھر دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں کم از کم اجرت میں اتنے اضافے کا کیا جواز ہے۔
ڈان اخبار کے مطابق کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر سلیم الازماں نے کہا کہ سندھ حکومت کا فیصلہ ’پہلے سے ہی مشکلات کے شکار صنعتی شعبے کے تابوت میں آخری کیل‘ تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی حکومت کے اعلان کے بعد اگر کسی کمپنی میں ایک ہزار ملازمین ہیں تو اس کے اخراجات میں صرف تنخواہوں کی مد میں ہر ماہ 80 لاکھ روپے کا اضافہ ہوگا۔
اس کے باوجود گزشتہ ماہ سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے مقرر کیے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے صوبائی حکومت کو کم از کم تنخواہ پر نظرثانی کی ہدایت کی لیکن ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی ہدایت کی کہ جب تک اس پر نظرثانی نہیں ہوجاتی تب تک حکومت اس اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔
تاہم اس دوران رفیق اور ان جیسے ہزاروں مزدور نئی طے شدہ کم از کم اجرت کے منتظر ہیں۔
ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت اور ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق 2021ء کی پہلی سہہ ماہی میں ٹیکسٹائل اور کپڑوں کی مد میں 3 ارب 46 کروڑ ڈالر کی برآمدات ہوئی تھیں، مگر یہی برآمدات اب 2022ء کی پہلی سہہ ماہی 27.41 فیصد بڑھ کر 4 ارب 42 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔
جولائی 2020ء سے مارچ 2021ء تک 11 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی ٹیکسٹائل اشیا برآمد کی گئیں۔ مزدوروں کے مطابق یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ وہ کورونا وبا کے باوجود ان گندی فیکٹریوں میں اپنا کام کرتے رہے جہاں پنکھے کے نیچے بیٹھنا بھی ایک مراعت سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ بجٹ کے دوران حکومت نے صنعتوں کے لیے ریلیف کا اعلان کیا تھا۔ تاہم مزدوروں کو بہت کم یا سرے سے کوئی بھی ریلیف حاصل نہیں ہوا۔ مزدوروں کو معلوم ہے کہ ان کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو ان کے ساتھ جو بھی سلوک ہورہا ہے وہ اسے برداشت کرتے ہوئے کام کرتے رہیں یا پھر وہ اپنی آواز بلند کریں اور اس کی بھاری قیمت چکائیں۔
حقوق کی جنگ
جیسے جیسے رات بڑھتی گئی ڈھابے پر مزید مزدور بھی ہماری گفتگو کا حصہ بنتے رہے۔ ان کے پاس سنانے کے لیے کئی کہانیاں تھیں اور ان میں سے اکثر نئی نہیں تھیں۔ بس نام تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن کہانی وہی ہوتی ہے۔
گزشتہ سال رفیق اور دیگر ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا لیکن کچھ ماہ بعد ہی انہیں دوبارہ کام پر رکھ لیا گیا۔ انہیں اس وقت فارغ کیا گیا تھا جب بونس دینے کا وقت قریب آرہا تھا۔ رفیق نے کہا کہ ’وہ اسی طرح پیسہ بچاتے ہیں۔ ہم صرف اسی وجہ سے واپس کام پر جاتے ہیں کیونکہ ہم پہلے ہی بھوک سے پریشان ہوتے ہیں۔ رفیق کی سب سے بڑی بیٹی 11 سال کی ہے۔ اس نے ابھی تک اسے اسکول میں داخل نہیں کروایا کیونکہ وہ اسے اسکول بھیجنے کے اخراجات پورے نہیں کرسکتا۔
یٰسین، رفیق اور ان جیسے ہزاروں مزدور کئی سالوں سے بنیادی مراعات کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے لیے 8 گھنٹے کے کام پر کم از کم اجرت کا حصول ابھی بہت دُور ہے۔
یٰسین کی مزدور تنظیم نے گزشتہ سال ’ہمارے حقوق کے لیے انقلاب‘ کے نام سے ایک کنونشن کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں امید سے زیادہ افراد نے شرکت کی جس سے یٰسین اور دیگر مزدوروں کو اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے حوصلہ ملا۔ انہوں نے وہاں تقاریر کیں، پلے کارڈز اٹھائے اور اپنی اپنی کوششوں سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔
یٰسین نے بتایا کہ رواں سال 17 اپریل کو انہوں نے ایک ایسی فیکٹری کے سامنے احتجاج کیا جس نے مبینہ طور پر کئی مزدوروں کو اس وجہ سے کام سے نکال دیا تھا کہ انہوں نے کم از کم اجرت، بونس اور سماجی تحفظ کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ اس احتجاج میں اظہارِ یکجہتی کے لیے ایسے مزدور بھی شریک ہوئے جو اس فیکٹری میں کام نہیں کرتے تھے۔ تاہم پولیس نے ان کے احتجاج میں خلل ڈالا اور یٰسین اور ایک اور مزدور کو گرفتار کرلیا۔
ان کے ساتھی مزدوروں نے ان کی ضمانت کا انتظام کیا لیکن پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ یٰسین کے مطابق کمپنی انتظامیہ نے ان کے لیے زیادہ مسائل کھڑے نہ کرنے اور مزدوروں کو احتجاج کے لیے جمع نہ کرنے کے عوض 45 ہزار روپے کی پیشکش کی (اس بارے میں رائے کے لیے کمپنی انتظامیہ سے بات نہیں ہوسکی)۔
یٰسین جو اب مزدوروں میں کافی مشہور ہوچکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’آخر ہم وہ رقم کیسے قبول کرسکتے تھے کہ جب ہمارے بھائی ان کے استحصال کا شکار تھے؟ وہ رقم کسی مزدور کے حصے سے ہی آتی اور یہ ہمیں کبھی قبول نہیں ہوتا‘۔
یٰسین نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ جب رشوت کی پیشکش کارگر ثابت نہ ہوئی تو پھر دھمکیاں دی گئیں۔
احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں
28 سالہ ہمت بھی ڈھابے پر ہماری گفتگو میں شامل ہوگیا۔ ہمت بھی ایک فیکٹری میں ملازم ہے جو بین الاقوامی برانڈز کو جینز فراہم کرتی ہے۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی زندگی کا بہترین دور کمپنی کو دینے کے باوجود وہ ماہانہ صرف 20 ہزار روپے کماتا ہے جبکہ اس دوران کمپنی کا کاروبار 3 گنا بڑھ گیا ہے۔
گزشتہ ماہ ہمت اور کچھ دیگر مزدور فیکٹری کے اندر بھوک ہڑتال کررہے تھے۔ ہمت کا کہنا تھا کہ انہوں نے مطالبات تسلیم کیے جانے تک بھوک ہڑتال جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے مطالبات میں تمام مزدوروں کو امپلائیز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن کے کارڈز کا اجرا بھی شامل تھا۔ اسی دوران فیکٹری کے باہر ہمت کے ساتھی بھی احتجاج کرنے والے تھے۔ یہ وہ مزدور تھے جنہیں کمپنی نے بغیر کسی وجہ کے نکال دیا تھا۔
آدھی رات کے قریب جب وہ مزدور فیکٹری تک پہنچے تو 3 پولیس وین بھی موقع پر پہنچ گئیں۔ ہمت کے مطابق تقریباً 17 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور ان میں سے کچھ گرفتاری کے دوران زخمی بھی ہوئے۔
ہمت کے مطابق ’افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج بھی نہیں کرسکتے۔ کمپنی کی انتظامیہ جانتی تھی کہ ہم باہر موجود مظاہرین کے ساتھ رابطے میں ہیں اس وجہ سے انہوں نے پُرامن مظاہرے میں مداخلت کی‘۔
ان مظاہرین نے کم از کم اجرت کی ادائیگی اور سماجی تحفظ کی ریجسٹریشن کے مطالبے کے لیے ستمبر میں بھی ایک ایسا ہی مظاہرہ کیا تھا۔
ہمت کا کہنا ہے کہ ’اب مجھے ہدف بنا لیا گیا ہے‘۔ ہمت مزید کہتے ہیں کہ وہ کئی سالوں سے اس کمپنی میں کام کررہے ہیں لیکن جب بھی مزدوروں نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے کبھی یونین بنانے یا اپنے مطالبات پیش کرنے کی کوشش کی تو کمپنی نے خاموش کروانے کے لیے انہیں حراساں کیا۔
ریاض* بھی پہلے اسی فیکٹری میں ایک مزدور تھے اور انہوں نے بھی 11 اکتوبر کو منعقدہ مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ مظاہرے کے وقت وہ اس کمپنی کے ہی ملازم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 'مظاہرے کے وقت میں ایک ہفتے کی چھٹی پر تھا لیکن میں نے اپنے ساتھیوں سے یکجہتی کے لیے مظاہرے میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ چونکہ میں 7 سالوں سے اس کمپنی میں کام کر رہا تھا اس وجہ سے مجھے امید تھی کہ مجھے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ لیکن جب میں چھٹیوں کے بعد فیکٹری لوٹا تو منیجر اپنے آدمیوں کے ساتھ میرے پاس آیا اور مجھے فوراً استعفیٰ دینے کے لیے کہا اور زبردستی مجھ سے استعفے پر دستخط کروائے‘۔
ہمت نے ہمیں بتایا کہ ’جب ہماری مصنوعات خریدنے والے بین الاقوامی برانڈز کے آڈیٹر بھی آتے ہیں تو ہمیں ان سے بات کرنے اور اپنی پریشانی کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ آڈیٹر کے سامنے سچ بولنا تو بہت دُور کی بات ہے ہم تو کسی ہراسانی یا ادائیگیوں سے متعلق مسائل پر منیجر سے بھی بات نہیں کرسکتے‘۔
ریاض اور رفیق دونوں کے ہی کاموں کی نوعیت ایسی تھی جس کے لیے انہیں دستانوں اور دیگر حفاظتی آلات کی ضرورت ہوتی تھی۔ ریاض جینز کو رنگنے کا کام کرتا تھا جبکہ رفیق جینز بنانے میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیکلز کا لوڈر تھا۔ رفیق نے بتایا کہ ’استعمال کرنا تو درکنار ہم نے آج تک حفاظتی آلات دیکھے بھی نہیں۔ مجھے اس کام کے خطرات کا علم ہے لیکن میں کیا کرسکتا ہوں؟'
فیکٹری میں کام کرنے والوں کو یہ محسوس کروایا جاتا ہے جیسے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری کے اندر کام کرنا جہاں باہر کا کوئی فرد نظر رکھنے کے لیے موجود نہیں ہوتا انہیں بدسلوکی اور ہراسانی کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار کردیتا ہے۔ انہوں نے بدسلوکی کے کئی واقعات بیان کیے جن کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے۔
ان مزدوروں نے کچھ ’ثبوت‘ بھی پیش کیے۔ انہوں نے ایک ویڈیو دکھائی جس میں ایک خاتون اپنے بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہیں اور خود کو اور اپنے بھائی کو لگنے والی چوٹیں اور زخم دکھا رہی ہیں۔ وہ جس فیکٹری میں کام کرتی تھیں مبینہ طور پر یہ زخم ان کو اس فیکٹری کے لوگوں کے ہاتھوں پہنچے تھے۔
سیما نامی وہ خاتون ایک فیکٹری میں ملازم ہیں۔ دیگر مزدوروں کے مطابق انہیں اور ان کے بھائی کو کمپنی کے لوگوں نے اس وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا کیونکہ سیما نے بونس کا تقاضا کیا تھا جو اسے نہیں دیا گیا تھا۔ کمپنی کے خلاف درخواست جمع کروانے کی کوششیں بھی بار آور ثابت نہ ہوئیں۔
ڈرانے دھمکانے کی یہ ترکیبیں اپنا اثر بھی دکھاتی ہیں۔ یہ مزدور سوچتے ہیں کہ ایک عورت آخر ایسے ماحول میں اپنے لیے کیسے آواز اٹھائے گی؟
فاسٹ فیشن کی اصل قیمت
یٰسین، ہمت، ریاض، رفیق اور ان جیسے ہزاروں مزدور مغرب میں فاسٹ فیشن کی دوڑ کو ممکن بناتے ہیں۔ بین الاقوامی منڈیوں میں ان برانڈز کی ایک جینز کی قیمت تقریباً 40 ڈالر ہوتی ہے۔ کراچی میں واقع فیکٹریوں میں مزدوروں کو مختلف کاموں کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ ایک مزدور کپڑا کاٹتا، دوسرا سیتا اور تیسرا تراش خراش کرتا ہے اور یوں ہر مزدور کے ذمے ایک کام ہوتا ہے۔ انہیں تیزی سے کام کرنا ہوتا ہے۔ وہ مسلسل ایک ہی کام بار بار انجام دیتے ہیں۔
ہمت کے مطابق، 'ہمیں ایک دن میں اوسط 800 پیس تیار کرنے کا ہدف دیا جاتا ہے'۔ تاہم چند مواقع پر یہ ہدف اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ہمت نے بتایا کہ، 'ہمارے انچارج ہمیں دیے گئے ٹارگٹ کی تکمیل کو یقینی بناتے ہیں، جو بعض اوقات ایک ہزار سے 1200 پیس فی دن تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ تھکا دینے والا کام ہوتا ہے مگر حالات کو بدلنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔'
ہمت کا ماننا ہے کہ فیکٹری مالکان باآسانی ہر مزدور کو 25 ہزار روپے کی کم از کم ماہانہ اجرت ادا کرسکتے ہیں لیکن بھاری منافعوں کی پیاس اور برانڈز کی جانب سے لاگتوں میں کمی کے لیے دباؤ کے باعث وہ ایسا نہیں کرپاتے۔
یٰسین کا کہنا ہے کہ 'مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ ان ملبوسات کو استعمال کرتے ہیں انہیں یہ خبر ہے بھی یا نہیں کہ جن کپڑوں کو مزدور اپنا خون پسینہ بہا کر بناتے ہیں وہ کس قدر (مزدوروں کے لیے) ذلت کے حامل ہوتے ہیں۔'
اب تک ان مصنوعات کے صارفین کو یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ حوصلہ افزا پیغامات سے مزین ان کی ٹی شرٹوں کی تیاری کے لیے مزدوروں کو کس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
2018ء میں گلوبل لیبر جسٹس کی جاری کردہ 2 رپورٹس میں ایشیا کی فیکٹریوں میں Gap اور H&M کے ملبوسات کی تیاری کے دوران خواتین مزدوروں کو جس استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت سے دیگر برانڈز بھی کڑی تنقید کی زد میں ہیں۔
تاہم پاکستان میں اس طرح کے استحصال اس قدر پوشیدہ ہیں کہ فاسٹ فیشن برانڈز کے صارفین تو کیا عام پاکستانی بھی ان حالات سے لاعلم ہیں جن میں ان کے ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں۔
مزدوروں کے حالات کی جانچ پڑتال
2019ء میں سندھ ہائی کورٹ نے سندھ کی فیکٹریوں میں مزدوروں کے حالات کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن نے فیکٹریوں میں جاکر کم از کم اجرت پر عمل درآمد کروانے کے ذمہ دار انسپیکٹرز کی متعدد اسامیاں خالی پائیں۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، 'ہم نے جب لیبر محکمے اور کم از کم اجرت کے بورڈ کے چیئرمین سے پوچھا کہ آیا کہیں کم از کم اجرت کی خلاف ورزی کی گئی ہے یا نہیں، تو انہوں نے سندھ کم از کم اجرت ایکٹ کی خلاف ورزی سے متعلق باتوں کو بے بنیاد قرار دے دیا'۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب کم از کم اجرت کے بورڈ کے چیئرمین اور اس وقت سندھ میں لیبر ڈائریکٹر کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے والے سعید صالح جمانی سے پوچھا گیا کہ آیا ان کے محکمے نے کسی فیکٹری کو کم از کم اجرت نہ دینے پر سزا دی ہے تو وہ خاموش رہے۔
وکیل جبران ناصر نے ای او ایس کو بتایا کہ، 'میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تمام صنعتوں میں مزدوروں کو جن حقیقی مسائل کا سامنا ہے ان میں کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی، SESSI (سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوشن) میں اندراج نہ ہونا، طبی بنیادوں پر بامعاوضہ چھٹیاں نہ ملنا، اوور ٹائم کے لیے مناسب معاوضہ نہ ہونا اور مرکزی آجروں کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ رویہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آجرین تیسرے فریق کی جانب سے بھرتی کیے گئے مزدوروں کو کام پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جوابدہی اور پریشانی سے بچا جاسکے کیونکہ صنعت مالکان مزدوروں کے بنیادی حقوق سے متعلق مسائل سے نمٹنے کو 'مہنگی پریشانی' تصور کرتے ہیں۔'
جبران ناصر کی مرتب کردہ فہرست میں زیادہ تر وہی مطالبات شامل ہیں جن کا ایک عرصے سے مزدور تقاضا کرتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق فراہم کیے جائیں کہ جن کو مانگنے پر انہیں سزا دے دی جاتی ہے۔ اگرچہ کم از کم اجرت میں اضافہ ایک خوش آئند قدم ہے لیکن اگر مزدوروں کی حمایت میں اٹھائے جانے والے فیصلے صرف کاغذ تک ہی محدود رہیں تو ان سے استحصال کے شکار مزدوروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ صوبائی حکومت تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں کم از کم اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنائے گی۔ تاہم پرانی تنخواہوں کے ساتھ بڑھتی مہنگائی کا سامنا کرنے والے مزدوروں کو ایسا ہونے کی زیادہ امید نہیں ہے۔
ڈھابے پر جمع ہونے والے اپنے ساتھی مزدوروں کی ترجمانی کرتے ہوئے رفیق کہتے ہیں کہ 'ہم معیشت کا پہیہ چلاتے ہیں مگر ہمیں بدلے میں کیا ملتا ہے؟ ہمارے بچے بھوک سے بلکتے ہیں اور روشن مستقبل پانے کے لیے اسکول نہیں جاپاتے۔ یہ ایک ایسی بے رحم چکی ہے جس میں ہم مسلسل پستے چلے آرہے ہیں'۔
جب رات گہری ہونے لگی تو مزدور بھی اپنے گھر کی راہ لینے لگے۔ انہیں اگلی صبح فیکٹری میں وقت پر اپنی حاضری لگوانی ہے۔
*شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے
یہ مضمون 7 نومبر 2021ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں