• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

اور یوں نیوزی لینڈ نے انگلینڈ سے سارے بدلے لے لیے

شائع November 11, 2021
کیا اتنے تسلسل کے ساتھ، اور ہر طرز کی کرکٹ میں، اتنی جامع کارکردگی دکھانے والی ٹیم بھی 'انڈر ڈاگ' کہلانی چاہیے؟ ہرگز نہیں! —اے ایف پی
کیا اتنے تسلسل کے ساتھ، اور ہر طرز کی کرکٹ میں، اتنی جامع کارکردگی دکھانے والی ٹیم بھی 'انڈر ڈاگ' کہلانی چاہیے؟ ہرگز نہیں! —اے ایف پی

ٹی20 میں اگر آپ ہدف کا تعاقب کر رہے ہوں اور 15 اوورز گزر جائیں تو صورتحال 'ابھی نہیں تو کبھی نہیں' والی ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر اگر آپ کو ان 30 گیندوں پر 60 رنز درکار ہوں اور عین اسی لمحے آپ کا وہ بلے باز بھی آؤٹ ہوجائے جس سے تمام تر امیدیں وابستہ ہوں، لیکن اس نازک ترین مرحلے پر نیوزی لینڈ نے جو کر دکھایا، اسے معجزہ کہا جائے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا۔

پسِ منظر

ہوسکتا ہے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے تماشائی کرکٹ کو اس نظر سے نہ دیکھتے ہوں، لیکن برِصغیر میں تو کرکٹ بدلہ لینے کا میدان ہوتا ہے۔ فلاں سے فلاں میچ اور فلاں ٹورنامنٹ کی شکست کا بدلہ لینے کی باتیں زبان زد عام ہوتی ہیں۔ اسی لیے کم از کم یہاں تو اس سیمی فائنل کو ورلڈ کپ 2019ء کے فائنل کے تناظر ہی میں دیکھا گیا۔

زیادہ تر شائقین کرکٹ نیوزی لینڈ کے حق میں تھے کہ وہ انگلینڈ سے اس میچ کا 'بدلہ' لے۔ لیکن بہت سے شائقین کو غالباً یاد نہیں ہوگا کہ 2016ء میں ہونے والے آخری ٹی20 ورلڈ کپ میں بھی پہلا سیمی فائنل انہی دونوں ٹیموں کے مابین کھیلا گیا تھا، جہاں انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو ہرا دیا تھا۔ اس لیے ایک طرح سے یہ مبیّنہ 'بدلہ' دو طرفہ تھا، 2016ء کا، 2019ء کا، سب کا بدلہ!

2016ء کے سیمی فائنل کی جھلکیاں

شروعات ہوئی کیسے؟

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سوائے پاکستان کے اس ٹورنامنٹ میں شریک ہر ٹیم نے کم از کم ایک مرتبہ شکست کا مزا ضرور چکھا ہے۔ نیوزی لینڈ نے ٹورنامنٹ کا آغاز پاکستان کے ہاتھوں شکست سے کیا تھا جبکہ انگلینڈ سیمی فائنل سے پہلے اپنا آخری مقابلہ جنوبی افریقہ سے ہارا تھا۔ اس لیے امید تھی کہ مقابلے بہت کانٹے کا ہوگا۔ لیکن اتنے اہم میچ کے لحاظ سے وکٹ اور حالات ذرا کٹھن تھے۔

انگلینڈ ابتدائی 10 اوورز میں صرف 67 رنز بنا پایا بلکہ 15 اوورز میں بھی اسکور بورڈ پر صرف 110 رنز ہی تھے۔ آخری 5 اوورز کی محنت سے ہی وہ اپنے اسکور کو 166 تک پہنچا پایا۔

پھر نیوزی لینڈ کی داستان بھی اس سے مختلف نہیں تھی بلکہ وہ تو ابتدائی 3 اوورز میں ہی تجربہ کار ترین بلے بازوں مارٹن گپٹل اور کین ولیمسن سے محروم ہوگیا تھا۔ آدھی اننگ مکمل ہونے پر یعنی 10 اوورز میں اس کے صرف 58 رنز تھے اور معاملہ 15 اوورز میں 107 اور آخری 5 اوورز میں 68 رنز درکار تک پہنچ گیا۔

یہاں جب کسی کو توقع نہیں تھی، تب نیوزی لینڈ کے بلے بازوں نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے زورِ بازو سے ایک یادگار کامیابی حاصل کی۔

فیصلہ کُن مرحلہ

جیمز نیشام نے 2019ء کے 'بدنامِ زمانہ' ورلڈ کپ فائنل میں نیوزی لینڈ کو تقریباً کامیابی سے ہمکنار کردیا تھا لیکن وہ ورلڈ کپ ان سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ڈھائی سال کے بعد اب ٹی20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں اسی انگلینڈ کے خلاف نیشام ایک مرتبہ پھر میدان میں اترے۔

3 اوورز میں صرف 18 رنز بنے تھے، نیوزی لینڈ کو صرف 4 اوورز میں 57 رنز کی ضرورت تھی اور وہ شکست کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اسکور کارڈ پر انگلینڈ کی فتح کے امکانات 90 فیصد سے زیادہ تھے۔

یہاں نیشام نے 'بدلہ موڈ' آن کرتے ہوئے 17ویں اوور میں کرس جورڈن کی پہلی گیند پر ایسا چھکا لگایا کہ وہ اپنی لائن و لینتھ ہی بھول گئے۔ انہوں نے 2 وائیڈ گیندوں کے ساتھ اوور میں ایک چھکا اور ایک چوکا مزید کھایا اور 23 رنز دے کر مایوسی سے سر ہلاتے رہ گئے۔ اس کے بعد نیشام نے اگلے اوور میں عادل رشید کو بھی 2 جاندار چھکے لگائے۔

میچ کا پانسہ مکمل طور پر پلٹ چکا تھا، گوکہ عادل نے اپنی آخری گیند پر نیشام کو آؤٹ کردیا لیکن تب تک وہ صرف 10 گیندوں پر 27 رنز بنا چکے تھے اور نیوزی لینڈ کو 2 اوورز میں صرف 20 رنز کی ضرورت تھی۔ ڈیرل مچل نے آخری اوور تک معاملہ جانے ہی نہیں دیا اور 19ویں اوور ہی میں میچ کا خاتمہ کردیا۔

ایک دشوار وکٹ پر، مشکل میچ میں، سخت مرحلے پر اوپنر ڈیرل مچل نے 47 گیندوں پر 72 رنز کی ناقابلِ شکست اننگ کھیلی اور بلاشبہ مردِ میدان تھے۔ تاہم حقیقت میں یہ نیشام کی اننگ ہی تھی جو شکست کے جبڑوں سے فتح چھین لائی۔

نیوزی لینڈ کی خفیہ طاقت

اماراتی سرزمین پر جاری ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء میں نیوزی لینڈ کا آغاز فاتحانہ نہیں تھا۔ وہ پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار تو ہوا لیکن اس مقابلے میں ہی اس کی ایک خفیہ طاقت آشکار ہوگئی تھی، یعنی فیلڈنگ! اگلے مقابلوں کی فتوحات میں جہاں نیوزی لینڈ کی شاندار باؤلنگ اور جاندار بلے بازی کا کردار تھا، وہیں پورا پورا حصہ فیلڈنگ نے بھی ڈالا۔

پاکستان کے خلاف میچ میں محمد حفیظ کے لگائے گئے شاٹ پر ڈیون کونوے کے ناقابلِ یقین کیچ سے لے کر سیمی فائنل میں جونی بیئرسٹو کی قیمتی وکٹ لینے کے لیے ولیمسن کی کوشش تک، فیلڈنگ نیوزی لینڈ کا طرۂ امتیاز نظر آیا ہے۔

گوکہ سیمی فائنل میں ان سے چند غلطیاں ہوئیں، مثلاً وکٹوں کے پیچھے ڈیوڈ ملان کا کیچ اس وقت چھوٹ گیا جب وہ صرف 10 رنز پر کھیل رہے تھے، اس کے علاوہ کیچ پکڑنے کی چند ایسی کوششیں بھی ناکام ہوئیں جو نیوزی لینڈ کے معیار سے کیچ ہونی چاہیے تھیں لیکن بحیثیتِ مجموعی پورے ٹورنامنٹ میں اگر کسی چیز نے نیوزی لینڈ کو اپنے حریفوں سے ممتاز رکھا ہے تو وہ ان کی فیلڈنگ ہے اور ان خامیوں اور کوتاہیوں کو پورا کرنے میں مدد دی ہے جو اس کی بیٹنگ اور باؤلنگ لائن میں موجود ہیں۔

انگلینڈ، بدقسمتی یا غلطیاں؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیمی فائنل میں زیادہ وقت انگلینڈ کا غلبہ نظر آیا۔ خاص طور پر اپنی اننگ کے دوران آخری 10 اوورز میں اور اس کے بعد ہدف کے دفاع میں ابتدائی 15 اوورز تک، انگلینڈ میچ پر چھایا ہوا تھا۔

انگلینڈ نے اپنے 'ترپ کے پتّے' بھی پھینکے، مثلاً لیام لوِنگسٹن کو باؤلنگ دی جنہوں نے نیوزی لینڈ کے بلے بازوں سمیت سب کو حیران کردیا۔ 4 اوورز میں صرف 22 رنز دیے اور 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، جس میں گلین فلپس کی قیمتی وکٹ بھی شامل تھی، جن کے آؤٹ ہونے کے بعد لگتا تھا کہ نیوزی لینڈ اب میچ نہیں جیت سکتا۔

یہ 17واں اوور تھا، کرس جورڈن جیمز نیشام کے رحم و کرم پر تھے۔ نیشام نے اوور کی چوتھی گیند کو چھکے کے لیے لانگ آن کی طرف اچھال دیا۔ جونی بیئرسٹو دوڑتے ہوئے آئے اور گیند کو میدان سے باہر جانے سے پہلے تھام لیا لیکن جس تیزی سے وہ گیند کی طرف آئے تھے، اسی کے ساتھ باؤنڈری لائن پار کرجاتے، اس لیے انہوں نے گیند قریب موجود لوِنگسٹن کی طرف اچھال دی۔ انہوں نے کیچ تھاما اور میدان میں جشن شروع ہوگیا لیکن دونوں فیلڈرز کو وہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کلین کیچ نہیں ہے اور ری پلے میں واضح ہوگیا کہ جب گیند بیئرسٹو کے ہاتھ میں ہی تھی، تب ان کا گھٹنا باؤنڈری لائن کو چُھو گیا تھا۔ ویسے کچھ یاد آیا آپ کو؟ 2019ء ورلڈ کپ فائنل؟ میچ کے نازک ترین مرحلے پر ٹرینٹ بولٹ کا کیچ اور پیر کا باؤنڈری کو لگنے کی وجہ سے چھکا ہوجانا؟

تو ایک طرف جہاں انگلینڈ کی باؤلنگ کا آخری لمحات میں مایوس کن کارکردگی دکھانا ناکامی کی وجہ ہے وہیں قسمت کا بھی کافی عمل دخل نظر آیا۔ بہرحال، انگلینڈ کا مسلسل دوسری بار ٹی20 ورلڈ کپ کھیلنے کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ انگلینڈ 2016ء کے ٹی20 ورلڈ کپ میں بھی فائنل میں پہنچا تھا جہاں اسے ویسٹ انڈیز نے ایک ناقابلِ فراموش مقابلے کے بعد زیر کردیا تھا۔ ویسے انگلینڈ ایک مرتبہ ٹی20 ورلڈ چیمپئن ضرور رہ چکا ہے جب اس نے 2010ء میں آسٹریلیا کو فائنل ہرایا تھا۔

نیوزی لینڈ، پہلا ٹی20 ورلڈ کپ فائنل

‏2007ء سے اب تک کُل 7 ورلڈ کپ ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ پہلے ورلڈ کپ میں سیمی فائنل تک پہنچا تھا اور اس کے بعد 2016ء میں۔ 2009ء، 2010ء، 2012ء اور 2014ء، سب میں اس کی کہانی دوسرے مرحلے ہی میں مکمل ہوئی۔

نیوزی لینڈ 2007ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں پاکستان سے ہارا تھا جبکہ 2016ء میں اسے انگلینڈ نے شکست دی تھی۔ اس مرتبہ وہ تاریخ بدلنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور پہلی بار کسی ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچا ہے۔

نیوزی لینڈ اب 'چھپا رستم' نہیں

ہم جب سے کرکٹ دیکھ رہے ہیں، نیوزی لینڈ کو کبھی کوئی فیورٹ نہیں سمجھتا بلکہ اسے ہمیشہ 'چھپا رستم' ہی قرار دیا جاتا ہے یعنی ایسی ٹیم جو کچھ بھی کرسکتی ہے، انگریزی میں کہیں تو 'انڈر ڈاگ'۔ لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران نیوزی لینڈ نے جو کچھ کیا ہے، اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب 'انڈر ڈاگ' بالکل نہیں۔

گزشتہ 3 سال میں نیوزی لینڈ ورلڈ کپ 2019ء کے فائنل تک پہنچا۔ پھر رواں سال ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں 'ہاٹ فیورٹ' بھارت کو شکست دی اور اب ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل تک بھی پہنچ چکا ہے۔ کیا اتنے تسلسل کے ساتھ، اور ہر طرز کی کرکٹ میں، اتنی جامع کارکردگی دکھانے والی ٹیم بھی 'انڈر ڈاگ' کہلانی چاہیے؟ ہرگز نہیں!

فائنل میں مقابل کون ہوگا؟

ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء کا فائنل 14 نومبر بروز اتوار دبئی میں کھیلا جائے گا کہ جہاں نیوزی لینڈ کا مقابلہ دوسرے سیمی فائنل کی فاتح ٹیم سے ہوگا۔ دوسرے سیمی فائنل میں پاکستان آسٹریلیا سے کھیلے گا، یعنی اس ٹیم سے جس کے خلاف وہ ورلڈ کپ میں کبھی کوئی ناک آؤٹ میچ نہیں جیت پایا، چاہے وہ ون ڈے کا ورلڈ کپ ہو یا ٹی20 کا۔ جس طرح نیوزی لینڈ نے تاریخ کا دھارا پلٹا ہے، کیا پاکستان بھی ایسا کرپائے گا؟

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Saleem Nov 11, 2021 01:42pm
اتنا دلچسپ اور پر مغز تجزیہ صرف فہد کیہر بھائی ہی لکھ سکتے تھے۔ شکریہ ساری تاریخ کو دہرانے کا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024