• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

نور مقدم قتل کیس: جرح کے دوران مداخلت پر ظاہر جعفر کو پھر کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا

شائع November 10, 2021
چاروں کو بعد میں واپس عدالت میں لایا گیا اور ظاہر جعفر کو ہولڈنگ سیل میں لے جایا گیا— فوٹو:ڈان نیوز
چاروں کو بعد میں واپس عدالت میں لایا گیا اور ظاہر جعفر کو ہولڈنگ سیل میں لے جایا گیا— فوٹو:ڈان نیوز

نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو گواہوں پر جرح کی کارروائی میں خلل ڈالنے پر اسلام آباد کی سیشن عدالت سے ایک مرتبہ پھر بے دخل کر دیا گیا۔

ظاہر جعفر نے نیشنل فرانزک کرائم ایجنسی کے انچارج محمد عمران کی جرح کے دوران بولنا شروع کردیا اور ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی سے کیس میں سمجھوتہ کرنے کا مطالبہ کیا، ظاہر جعفر نے کہا کہ ’آپ میری بات سن رہے ہیں؟۔

مزیدپڑھیں: نور مقدم قتل کیس: وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع

اس موقع پر جج عطا ربانی نے ظاہر جعفر اور اس کے والد (ذاکر جعفر) اور عملے کے تینوں افراد کو کمرہ عدالت سے باہر بھیجنے کا حکم دیا۔

بعدازاں چاروں کو واپس کمرہ عدالت میں لایا گیا لیکن ظاہر جعفر کو ہولڈنگ سیل میں ہی رکھا گیا۔

آج کی سماعت میں، وکیل اکرم قریشی اور شہزاد قریشی نے تھراپی ورکس ملازمین کی نمائندگی کی جبکہ سجاد احمد بھٹی اور ملک شہباز رشید ظاہر جعفر کے گھر کے گھریلو عملے کے قانونی مشیر کے طور پر پیش ہوئے تھے۔

نورمقدم کے اہل خانہ کے وکیل ایڈووکیٹ شاہ خاور موجود نہیں تھے، جج کے استفسار کرنے پر ایڈووکیٹ بابر حیات سومرو نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔

پراسیکیوٹر حسن علی نے محمد عمران کا بیان ریکارڈ کرایا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

محمد عمران نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے کمرے سے مختلف شواہد جیسے چاقو، بندوق، میگزین، چار سگریٹ اکٹھے کیے اور انہیں تفتیشی افسر کے حوالے کردیا جبکہ نورمقدم کا سر کھڑکی کے پاس سے ملا تھا۔

اکرم قریشی نے محمد عمران سے جرح کی تو انہوں نے بتایا کہ میں گھر پر تھا، مجھے رات 9:40 بجے ایس پی آفس نے الرٹ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ فون کرنے والے کا نام نہیں جانتا لیکن انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے دفتر سے ہے۔

محمد عمران نے عدالت کو دیگر تفصیلات سے آگاہ کیا جس میں جائے وقوع سے دفتر کا فاصلہ وغیرہ شامل ہے۔

مزیدپڑھیں:نور مقدم کیس: مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے، سپریم کورٹ

انہوں نے بتایا کہ وہ رات ساڑھے دس بجے کے قریب جائے وقوع پر پہنچے تھے اور وہاں 8 سے 10 لوگ موجود تھے جن میں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) عطا الرحمٰن اور دیگر پولیس اہلکار شامل تھے۔

محمد عمران نے کہا کہ کمرے سے تمام اشیا قبضے میں لے کر تفتیشی افسر کو دے دیی گئی تھیں، ہم تفتیشی افسر کے ساتھ تقریباً 3 گھنٹے تک جائے وقوع پر رہے، چاقو سے فنگر پرنٹس لیے گئے لیکن بندوق اور نوکو ڈسٹر کے نہیں لیے گئے۔

بعدازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر ہیڈ کانسٹیبل جابر، کمپیوٹر آپریٹر مدثر، اے ایس آئی دوست محمد اور ڈاکٹر شازیہ کو طلب کرلیا۔

علاوہ ازیں ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے 4 گواہوں کی طلبی کے نوٹس جاری کیے جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج دینے سے متعلق تفتیشی افسر کو کل عدالت میں طلب کرلیا گیا ہے۔

عدالت نے 4 گواہ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 17 نومبر تک ملتوی کر دی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ رواں سال 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: [نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر][4]

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: [نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد][5]

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: [نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع][6]

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

بعدازاں 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا تھا۔

9 نومبر کو نورمقدم قتل کیس میں استغاثہ نے جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ اسلام آباد سیشن کورٹ میں جمع کرادیا جس میں رواں برس کے آغاز میں اسلام آباد کے ایک گھر میں خاتون کے قتل سے قبل کے واقعات کی ویڈیوز ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024